کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شیعہ اکثریتی علاقے دشت برچی میں سیدالشہد سکول کے قریب دھماکے میں ابتک 40 بچے ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ ہلاک شدگان میں سے زیادہ تر نو عمر طلبا تھے۔
Blasts targeting Afghan school in Kabul kill 40, injures dozens https://t.co/VsCzZNNZzE pic.twitter.com/0cSNX3LJjW
— Reuters World (@ReutersWorld) May 8, 2021
افغان حکومت کے ترجمان کے مطابق دارالحکومت کابل میں ہونے والا بم دھماکا سید الشہداء اسکول کے نزدیک ہوا۔
وزارت داخلہ کے مطابق دھماکے کی جگہ کے قریب ہی شیعہ ہزارہ مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ دشت برچی ہے۔ افغان شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ماضی میں بھی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سامنا رہا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب طلبہ سکول کی عمارت سے باہر نکل رہے تھے۔ وزارت تعلیم کے مطابق زخمیوں میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔
https://twitter.com/TOLOnews/status/1391031946994724864?s=19
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرائیں نے اس دھماکے کی وجہ بیان نہیں کی تاہم اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ دھماکے میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
کابل میں وزارتِ صحت کے حکام نے ہلاکتوں کی تعداد پہلے پچیس اور زخمیوں کی تعداد باون بتائی۔ کچھ ہی دیر بعد ہلاکتوں کی تعداد چالیس ہو جانے کی تصدیق کر دی گئی۔
مقامی ہسپتال کے ذرائع نے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ آخری خبریں ملنے تک بم دھماکے کی جگہ پر ایمبولینیس موجود تھیں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا جا رہا تھا۔
Few days ago the same students at the Sayed Al- Shuda had demanded the education ministry to provide them with books. But today they were massacred. https://t.co/oIlS9I8uYZ
— BILAL SARWARY (@bsarwary) May 8, 2021
اس بم دھماکے کے بعد مشتعل مظاہرین کی طرف سے ریسکیو ورکرز کے زد وکوب کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ حکام نے مظاہرین سے پرامن رہنے اور ریسکیو سرگرمیوں میں تعاون کی اپیل کی ہے۔
مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی جائے وقوعہ پر جمع ہے اور ان کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ کابل میں وزارتِ صحت کے ترجمان غلام دستگیر نزاری نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دھماکے کی جگہ والے علاقے کو خالی کر دیں تا کہ امدادی کارروائیاں جاری رکھی جا سکیں۔
یہ حملہ کابل کے مغربی حصے میں پیش آیا ہے جہاں کثیر تعداد میں ہزارہ شیعہ مسلمان آباد ہیں۔ گذشتہ برسوں میں نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) نے یہاں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
طالبان نے ان امکانات کی تردید کی ہے کہ یہ کارروائی انہوں نے کی۔ ساتھ ہی طالبان نے اس ہلاکت خیز حملے کی مذمت بھی کی ہے۔
#Reaction
We condemn today's blast in Dashti Barchi #Kabul which targeted civilians & sadly caused heavy losses.
These are the actions of sinister circles that are operating in the name of Daesh under the wings & intelligence cover of #Kabul admin.— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) May 8, 2021
کابل میں ہفتہ آٹھ مئی کو کیا جانے والا یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب اس جنگ زدہ ملک میں امریکا کے صرف ڈھائی ہزار سے تین ہزار تک فوجی وہاں رہ گئے ہیں۔ امریکی فوج کا انخلا جاری ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے فوجی گیارہ ستمبر سے پہلے پہلے افغانستان سے واپس اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہو جائیں گے۔
ایک اعلیٰ امریکی فوجی اہلکار کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کو ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان کے وسیع تر علاقے پر طالبان عسکریت پسندوں کو کنٹرول حاصل ہے۔