افغانستان کے جنوبی صوبے زابل میں سڑک کنارے نصب بم سے مسافر بس کو اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں 25 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
#AFG “A passenger bus ???? was blown up by anti personal mine on the Kabul-Kandahar highway in Sharay Safa district,Zabul province. At least 25 passengers killed.Women and Children among those wounded and killed. Incident took place at 12:00AM last night.”,Zabul officials tells me.
— BILAL SARWARY (@bsarwary) May 9, 2021
خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق گورنر زابل کے ترجمان گل اسلام سیال کا کہنا تھا کہ سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے بس نشانہ بنی۔
50 civilians killed or wounded in Parwan, Zabul blastshttps://t.co/z4XFRQis0g#ArianaNews #Afghanistan #civilian #Zabul #Parwan #Taliban #MoI #Blast pic.twitter.com/YZWJPUiHRV
— Ariana News (@ArianaNews_) May 10, 2021
ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
Bomb hits passenger bus in Shahr-i-Safa district of Zabul province, Interior Ministry says. At least 16 people were killed and 41 others were wounded in the blast, local officials tell 1TV. pic.twitter.com/UqosHmkA10
— 1TVNewsAF (@1TVNewsAF) May 10, 2021
وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں 28 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ دھماکے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔
وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل علی الصبح صوبے پاروان میں ایک منی بس کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں دو افراد ہلاک اور 9 زخمی ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں امریکا کی جانب سے فوجی انخلا کے بعد سرکاری فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دو روز قبل دارالحکومت کابل میں اسکول کے باہر دھماکے سے 68 افراد ہلاک اور 187 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
کابل میں سید الشہدا سکول کے باہر کاربم دھماکے اور مارٹر حملے میں زخمی ہونے والوں کی اکثریت طالبات کی بتائی گئی تھی جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے حملے کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی تھی۔
وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ سید الشہدا اسکول سے لائی جانے والی زیادہ تر لاشیں طلبہ کی ہیں۔
ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ یہ کار بم دھماکا تھا جو اسکول کے مرکزی دروازے کے سامنے ہوا، دھماکے میں ہلاک افراد میں سے 7 سے 8 وہ طالبات تھیں جو اسکول ختم ہونے کے بعد گھر واپس جا رہی تھیں۔
افغان صدر نے اس حملے کی ذمہ داری طالبان پر عائد کردی تھی جبکہ طالبان نے عید کے دوران 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان نے ایک بیان میں کہا کہ ‘امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عید کے تیسرے دن تک ملک بھر میں دشمن کے خلاف تمام جارحانہ کاروائیاں بند کریں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘لیکن ان دنوں میں اگر دشمن آپ کے خلاف کوئی حملہ کرتا ہے تو اپنے علاقے کی مضبوطی سے حفاظت اور دفاع کے لیے تیار رہیں’۔
افغان امن عمل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے ترجمان نے طالبان کے مذکورہ اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ بھی (جنگ بندی) کے لیے تیار ہے اور جلد ہی اس کا اعلان کیا جائے گا’۔
یاد رہے کہ 2018 میں افغانستان میں حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد طالبان نے 17 برس میں پہلی مرتبہ عیدالفطر کے پیش نظر تین دن کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں 2019، 2020 میں بھی طالبان نے رمضان المبارک کے اختتام پر عید الفظر کے پیش نظر تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
طالبان کے ترجمان نے ساتھ ہی خبردار کیا تھا کہ جنگ بندی کا اعلان غیر ملکی فوج کے لیے نہیں ہے، کسی بھی حملے کی صورت میں اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔