اقوام متحدہ کا اسرائیل فلسطینی لڑائی بند کرنے پر زور، اسرائیلی بمباری سے بچوں اور خواتین سمیت 140 افراد ہلاک

نیو یارک + یروشلم + غزہ (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے اسرائیل اور فلسطین تنازعے کے دونوں فریقوں سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ فلسطینی، اسرائیلی اور خطے کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر خطے میں پائیدار امن کی کوششیں جاری رکھے گی۔

یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب جمعے کے روز بھی غزہ میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملے جب کہ غزہ پر اسرائیلی توپوں سے گولہ باری اور فضائی کارروائیاں جاری رہیں۔

‘متاثرہ خطے میں ہنگامی انسانی امداد درکار ہے’

​اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کئی دنوں سے جاری عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان اور بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچا ہے۔

عالمی ادارے کے سربراہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انتونیو گٹیرس نے انسانوں کے جانی نقصان پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے، جس کا دردناک پہلو یہ ہے کہ اس میں متعدد بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر لڑائی کو نہ روکا گیا تو اس کے نتیجے میں سیکیورٹی کی صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی اور انسانی بحران گھمبیر صورت اختیار کر لے گا۔ اس کی وجہ سے شدت پسندی کے جذبات مزید بھڑک اٹھیں گے اور اس کے اثرات نہ صرف فلسطینیوں کے علاقے تک اور اسرائیل تک پھیلیں گے، بلکہ یہ تنازع دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

مصالحتی کوششوں کے حوالے سے گٹیرس نے کہا کہ اقوام متحدہ مصالحت کی کوششیں کر رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر متاثرین کی فوری مدد کی اشد ضرورت ہے اور انہیں ضروری امداد فراہم کرنے کا کام جلد شروع کیا جائے۔

گٹریس نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے چار فریقوں کا گروپ جلد از جلد اجلاس بلائے، اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس ضمن میں انھوں نے فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے ماضی میں اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کردہ قراردادوں، بین الاقوامی قانون اور باہمی سمجھوتوں کا بھی ذکر کیا۔

صدر بائیڈن کا عید کے پیغام میں غزہ کی صورتحال کا ذکر، متاثرہ بچوں سے اظہار ہمدردی

صدر بائیڈن نے عید الفطر کے پیغام میں غزہ کی صورتحال اور مصالحت کی کوششیں جاری رکھنے کا ذکر کیا ہے۔ صدر بائیڈن نے عید الفطر کے پیغام میں غزہ کی صورتحال اور مصالحت کی کوششیں جاری رکھنے کا ذکر کیا ہے۔

ادھر امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ فلسطینیوں، اسرائیلی اور خطے کے دیگر پارٹنرز کے ساتھ مل کر پائیدار امن کی کوششیں جاری رکھے گی۔

صدر نے یہ بات جمعے کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہی، جس میں انہوں نے مسلم دنیا کو عید کی مبارکباد بھی پیش کی ہے۔

وائٹ ہاوس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی، جن میں غزہ میں رہنے والے فلسطینی بھی شامل ہیں اور اسرائیلی عوام، سبھی کو عزت، تحفظ اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے۔

انھوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے بڑے تہوار عیدالفطر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ مسلم دنیا اپنا تہوار منا رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس سال بیت المقدس کی صورت حال ہر جگہ کے مسلمانوں پر گراں گزری ہے، جن میں امریکہ میں رہنے والی مسلمان کمیونٹیز بھی شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی خاندان کو اپنے گھر اور اپنی عبادت گاہ میں رہتے ہوئے خوف یا اپنے تحفظ کا مسئلہ درپیش نہیں آنا چاہیے۔

بیان کے مطابق ، ”ہم اس خطے کے بچوں کے بارے میں فکر مند ہیں، جو ایک ایسے تنازعے کا صدمہ جھیلنے پر مجبور ہیں، جس پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں”۔

صدر بائیڈن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ خود اور خاتون اول جل بائیڈن اتوار کو وائٹ ہاوس میں عید کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریب کے منتظر ہیں۔

مصالحتی کوششوں کے لئے مصر کا وفد اسرائیل پہنچ گیا

ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق، مشرق وسطی میں مصالحتی کوششوں کو آگے بڑھانے اور جنگ بندی کے لیے مصر کا ایک وفد اسرائیل پہنچ چکا ہے۔ مصر کے علاوہ، قطر اور اقوام متحدہ نے بھی اس ضمن میں اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

غزہ کی صورتحال گمبھیر، جانی نقصان میں اضافہ

اب تک اس جنگ کے میں غزہ میں 139 فلسطینی مارے گئے ہیں جبکہ 8 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

حماس کی نگرانی میں کرنے والی غزہ کی وزارت صحت کے تازہ اعداد. و شمار کے مطابق اسرائیلی بمباری سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 139 ہو چکی ہے۔ مرنے والوں میں 39 بے اور 22 خواتین بھی شامل ہیں۔ جب کہ زخمیوں کی کل تعداد 1000 سے زائد بتائی جاتی ہے۔

حماس اور اسلامی جہاد کے شدت پسند گروپوں نے تصدیق کی ہے کہ ان کے 20 اراکین ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ اسرائیل نے بتایا ہے کہ،مرنے والے “دہشت گردوں” کی کل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ادھر راکٹ حملوں کی زد میں آکر اسرائیل میں سات افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں ایک چھ برس کا بچہ اور ایک فوجی شامل ہیں۔

فلسطین کی وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے سنیچر کو غزہ شہر کے مغربی حصے میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ پر کیے گئے فضائی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم سات فلسطینی مارے گئے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس لڑائی میں صرف درجنوں جنگجو ہی ہلاک ہوئے ہیں۔

دریں اثنا خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کا نشانہ اس وقت غزہ میں موجود نئی سرنگیں بھی ہیں جنھیں فلسطینی جنگجو استعمال کر رہے ہیں۔

اسرائیلی فوجی کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کورنیکس نے روئٹرز کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر حملے میں 160 جہاز، ٹینک اور آرٹلری حصہ لے رہی ہے۔

یہ سنہ 2014 کے بعد سے ہونے والی شدید ترین لڑائی ہے۔

اسرائیل کے اندر ہو کیا رہا ہے؟

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ میں جاری لڑائی کے دوران اسرائیل کے اندر بھی پرتشدد ہنگامے اور واقعات پھوٹ پڑے ہیں، جن میں عرب اور اسرائیلی شہریوں کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا ہے اور پولیس تھانوں پر حملے بھی ہوئے ہیں۔

پیر سے اب تک اسرائیل کے اندر سات افراد مارے گئے ہیں اور تشدد کو روکنے کے لیے ایک ہزار پولیس کی نفری طلب کی گئی ہے۔

پولیس کے ترجمان مائیکی روزن فیلڈ نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں جس قسم کا نسلی تشدد دیکھنے میں آیا ہے یہ کئی دہاہیوں سے دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس طاقت کے استعمال میں اضافہ کر رہی ہے۔

انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہروں میں، جہاں انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی اسرائیل کی سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی میں بسنے والے عربوں سے جھڑپیں ہوئی ہیں، فوج بھی تعینات کی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز نے شہر میں جاری بد امنی کی روک تھام کے لیے سکیورٹی فورسز کی ‘اضافی نفری طلب کرنے’ کا حکم دیا ہے جبکہ 400 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

اسرائیل کے متعدد شہروں میں ایمرجنسی کا نفاذ

جمعرات کو اسرائیل نے پرتشدد واقعات کی وجہ سے یروشلم، حیفا، تمارا اور لُد میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

عکا کے مقام پر اسرائیل کے چند عرب شہریوں نے ایک 30 سال سے زائد عمر کے یہودی کو تشدد کا نشانہ بنایا جو ابھی گلیلی میڈیکل سینٹر میں انتہائی تشویشناک حالت میں ہے۔ پولیس کے مطابق ان عرب شہریوں نے ہاتھ میں ڈنڈے اور لوہے کے راڈ تھام رکھے تھے۔

اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے بھی ان پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملات ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ یہودی اور عرب فسادیوں نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ لد اور عکا میں جن لوگوں نے تشدد کیا ہے وہ اسرائیلی عربوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی وہ لوگ یہودیوں کے نمائندہ ہیں جنھوں نے بیت یام میں پرتشدد کارروائیاں کیں۔ ‘یہ انتہا پسند ہماری زندگیوں کو تباہ نہیں کر سکیں گے۔’

اسرائیلی عرب کون ہیں؟

اسرائیل کی آبادی میں 21 فیصد ایسے لوگ ہیں جو اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔ دسمبر میں اسرائیل کے ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی 1.96 ملین آبادی اسرائیلی عربوں پر مشتمل ہے۔

سنہ 1948 کی جنگ میں لاکھوں عرب شہری اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اسرائیل میں رہ جانے والوں کو اسرائیل کی شہریت دے دی گئی جو اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔

ان اسرائیلی عربوں کی 80 فیصد تعداد مسلمان ہے۔ دیگر عرب اپنے آپ کو مسیحی یا دروز مذاہب کے پیروکار کہلاتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے عربوں کی ہے جو اپنے آپ کو اسرائیل کے فلسطینی شہری کہلاتے ہیں۔

اسرائیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے عرب شہری برابری کے سماجی اور سیاسی حقوق رکھتے ہیں۔ البتہ انھیں ضروری ملٹری سروس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ تاہم ان اسرائیلی عربوں کا مؤقف ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انھیں قانونی، ادارہ جاتی اور سماجی تعصبات کا سامنا رہتا ہے۔

دنیا کے کئی شہروں میں مظاہرے

جمعے کو دنیا کے کئی مسلم اکثریت والے ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں جن میں بنگلہ دیش، پاکستان، اردن، کوسوو، اور ترکی شامل ہیں۔

تاہم یورپ میں کچھ مظاہروں میں یہودی مخالف نعرے اور توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ پیرس میں پہلے سے طے شدہ ایک احتجاجی مظاہرے پر پرتشدد جھڑپوں کے خطرے کے پیشِ نظر پابندی لگا دی گئی ہے۔

جرمنی میں مظاہرین کی جانب سے اسرائیلی پرچم نذرِ آتش کیے جانے کے بعد چانسلر اینگلا مرکل کے ترجمان نے تنبیہہ کی ہے کہ یہودیوں سے نفرت پر مبنی مظاہروں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیرس میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے پر پابندی کے بعد مظاہرے کے منتظمین نے اس پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ منتظمین کے وکلاء کا کہنا ہے کہ پابندی غیر متناسب اور اس کے سیاسی مقاصد ہیں۔ وکلاء توقع کر رہے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ کل یعنی سنیچر کی صبح تک آ جائے گا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں