یروشلم + بیروت (ڈیلی اردو/بی بی سی) لبنان سے متعدد راکٹ شمالی اسرائیل کی طرف داغے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس پر چار راکٹ داغے گئے تھے: ایک کو روک لیا گیا، دوسرا کھلے میدان میں جا گِرا اور دو بحیرہ روم میں گِرے ہیں۔
اخبار ٹائمز آف اسرائیل کی خبر کے مطابق شفاعمرو، حيفا، كريوت اور ان کے گرد و نواح کے علاقوں میں تنبیہ کے سائرن بجائے گئے تھے۔
IDF: 4 rockets fired at Israel from Lebanon, 1 intercepted; no injuries https://t.co/74fm97zl4l
— The Times of Israel (@TimesofIsrael) May 19, 2021
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق كريوت کے رہائشیوں نے تین بڑے دھماکے سنے ہیں۔ تاہم اب تک کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جوابی کارروائی میں لبنان کے علاقوں میں اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
4 rockets were just fired from Lebanon at northern Israel, 1 of which was intercepted by the Iron Dome.
In response, IDF artillery forces are striking a number of targets in Lebanon.
We are prepared for any scenario on any front.
— Israel Defense Forces (@IDF) May 19, 2021
لبنان اور اسرائیل میں 2006 میں ایک ماہ تک جنگ جاری رہی تھی جس کے بعد سے لبنان میں حزب اللہ سمیت کئی مسلح گروہ موجود ہیں۔
سکیورٹی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ یہ راکٹ لبنان کے جنوبی ساحلی شہر صور کے قریب واقع گاؤں صديقين سے اسرائیل کی طرف لانچ کیے گئے تھے۔ ابتدائی طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ راکٹ کس نے داغے ہیں اور دونوں جانب حملوں سے کیا نقصان پیش آیا ہے۔
روس: غزہ میں مزید ہلاکتیں ’قابل قبول نہیں‘
روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ملک کے ایک سینیئر اہلکار نے اسرائیلی سفیر کو بتایا ہے کہ ایسے کوئی اقدامات اب ’قابل قبول نہیں‘ ہوں گے جن سے غزہ میں مزید ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں روس عالمی سطح پر ان ممالک اور بین الاقوامی گروہوں میں شامل ہوگیا تھا جنھوں نے غزہ میں سیز فائر کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ بھی شامل ہیں۔
اسرائیل میں موجود درجنوں غیر ملکی سفارتکار امن معاہدے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک تقریباً 100 خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 222 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ میں کم از کم 150 جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم حماس ان جنگجوؤں کی تعداد کے حوالے سے اعداد و شمار جاری نہیں کرتا جو اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاک ہوتے ہیں۔
فلسطینی رہنما کا اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام
فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل پر غزہ میں ’ریاستی دہشتگردی اور جنگی جرائم‘ کا الزام لگایا ہے۔
ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک بیان میں محمود عباس نے کہا ہے کہ فلسطینی شہری ’بین الاقوامی عدالتوں میں ان جرائم کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی سے رُکنے والے نہیں ہیں۔‘
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف فوجی اہداف کو نشانہ بناتا ہے اور اس نے فضائی حملوں سے قبل تنبیہ کے ذریعے شہریوں کی ہلاکتیں روکنے کی کوشش کی ہے۔
رواں سال انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) نے سنہ 2014 میں اسرائیل اور فلسطینی گروہوں کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کی تھی۔ یہ وہ وقت ہے جب آخری بار اس لڑائی نے شدت اختیار کی تھی۔
حالیہ کشیدگی پر بھی آئی سی سی نے تشویش ظاہر کی ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں نئے سرے سے فضائی حملے کیے ہیں۔ اس کے اہداف میں غزہ میں قائم سرنگیں ہیں جو اس کے مطابق حماس کے مسلح گروہوں نے قائم کر رکھی ہیں۔
غزہ میں موجود جنگجو اسرائیل پر جوابی راکٹ حملے کر رہے ہیں جن کی اکثریت جنوبی اسرائیل میں گِری ہے۔ اشكلون اور اشدود میں کئی راکٹ گِرے ہیں مگر ہلاکت یا زخمیوں کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل امن قائم کرنے کے لیے لڑ رہا ہے۔ سیز فائر کے معاملے پر انھوں نے غیر ملکی سفارتکاروں سے کہا ہے کہ وہ ’کوئی سٹاپ واچ لے کر نہیں کھڑے۔‘
فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام لگایا ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایسے اہداف کو نشانہ بناتا ہے جہاں سے دہشتگردی کی کارروائیاں کی جاتی ہیں اور اس نے شہری آبادی کو نقصان پہنچانے سے خود کو روکا ہے۔