لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) 2019 میں لندن برج پر پاکستانی نژاد برطانوی شہری عثمان خان کے حملے میں دو راہ گیروں، جیک میرٹ اور ساسکیا کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے دوران تین حقائق کھل کر سامنے آئے ہیں۔
1: 29 نومبر 2019 میں لندن برج پر حملے کی جوڈیشل انکوائری کے دوران تین حقائق کھل کر سامنے آئے ہیں۔
2: عثمان خان کو جب جیل میں ڈالا گیا اور جب انھیں جیل سے رہا کیا گیا، وہ خطرناک ترین شدت پسند تھے۔
3: انسداد دہشتگردی کے ماہرین اور تفتیش کاروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ عثمان خان کتنا خطرناک مجرم تھا لیکن جیل سے نکلنے کے جو پینل عثمان خان کی نگرانی کر رہا تھا وہ ان خطرات سے آگاہ نہیں تھا۔
جب عثمان خان نے لوگوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا کسی کو اس کے ارادوں کا علم نہیں تھا اور جب اسے لندن تک سفر کی اجازت ملی تو کسی کو بھی صحیح طرح اندازہ نہیں تھا کہ کے کتنے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
عثمان خان لندن کیوں آیا؟
عثمان خان 29 نومبر 2019 میں کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے جیلوں میں قید رہنے والے افراد کی تربیت کے لیے ’اجتماعی تعلیم ‘ کے عنوان سے ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی غرض سے لندن آیا تھا۔
اس سکیم کا آغآز بکنگہم شائر میں قائم گرینڈن جیل سے شروع کیا گیا تھا جس میں نفسیاتی طریقوں کے ذریعے مجرموں کے رویوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی تھی۔
عثمان خان وائٹ مور جیل میں قید کے دوران کیمبرج یونیورسٹی کی اس سکیم کا حصہ بنے۔ کیمبرج یونیورسٹی کی سکیم کو چلانے والوں کا اس سے پہلے خطرناک مجرموں کے ساتھ برتاؤ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
عثمان خان کو ’اجتماعی تعلیم‘ پروگرام کی ایک کامیابی تصور کیا جاتا تھا اور اس سکیم کے سرکردہ لوگوں نے اسے دوبارہ ملاقات کے لیے لندن آنے کی دعوت دی۔
عثمان خان کو جیل میں کیوں بند کیا گیا تھا؟
برطانیہ کے وسطی شہر سٹوک آن ٹرینٹ کے رہائشی عثمان خان اوائل عمری سے ہی شدت پسندوں کو بھرتی کرنے والی تنظیم المہاجرون کا حصہ رہے ہیں اور ان کا نام المہاجرون کے تمام بڑے منصوبوں سے جڑا ہوا ہے۔
عثمان خان 2008 سے پولیس اور ایم آئی فائیو کی نظروں میں تھے۔ وہ لندن، کارڈف اور سٹوک کے اس گروہ کا حصہ تھے جنھیں پولیس نے 2010 میں گرفتار کر لیا گیا اور پھر انھیں سزا سنا کر جیل میں بند کر دیا گیا۔
اسی گروہ نے لندن سٹاک ایکسچینج کو بم سے آڑانے کی منصوبہ کی تھی۔
سنہ 2012 میں انھیں ‘عوام کی حفاظت’ کی غرض سے غیر معینہ مدت کے لیے قید کی سزا سنائی گئی تھی جسے بعد میں تبدیل کر کم سے کم مدت آٹھ برس تھی۔
عثمان خان پاکستان (پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے ضلع کوٹلی کے گاؤں کجلانی) میں ایک ایسا مدرسہ قائم کرنا چاہتے تھے جہاں شدت پسندی کی تربیت دی جا سکے اور اس کے لیے وہ فنڈز اکٹھے کر رہے تھے۔ وہ خود بھی اس مدرسے میں دہشتگردی کی تربیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔
لندن برج پر حملہ کرنیوالے دہشت گرد کی شناخت پاکستانی نژاد عثمان خان کے نام سے ہوگئی https://t.co/SWBUMQj1Cf pic.twitter.com/PwEmpmajkB
— Daily Urdu (@DailyUrduNet) November 30, 2019
جج نے انھیں سزا سناتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ عثمان خان کی جیل سے رہائی خطرات سے خالی ہو گی۔ انھیں 2018 سے جیل سے رہائی مل گئی۔
جیل میں عثمان خان رویہ کیسا تھا؟
2018 میں کرسمس کے موقع پر جیل سے رہائی تک عثمان خان کو جیل میں ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ان کا شمار ایک ایسے قیدی کے طور پر ہوتا تھا جو بہت ہی خطرناک ہے اور اس کے رویے میں بہتری کا کوئی آثار نہیں تھا۔
عثمان خان نے اپنی ساری جوانی خطرناک لوگوں کے ساتھ گذاری جو خطرناک منصوبے بنا رہے تھے اور وہ انھیں پسند کرتا تھا۔
سیکورٹی کے اہلکاروں نے اسے ایک ایسا ’غنڈہ ‘قرار دیا تھا جو جیل میں قید دوسروں کو شدت پسندی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ایک موقع پر اس نے جیل کے ایک ممنوعہ حصے میں داخل ہو ’کافروں کے سر تن سے جدا‘ کرنے کے بارے میں ایک نظم پڑی۔
جب جیل سے ان کی رہائی کی تاریخ نزدیک آ رہی تھی تو جیل حکام اور ایم آئی فائیو کے ہاتھ دو معلومات لگیں۔ ان معلومات سے واضح ہو رہا تھا کہ جیل سے رہائی کے بعد عثمان خان ایک بار پھر اسی ڈگر پر چلے گا جس کی وجہ سے جیل میں قید کاٹ رہا تھا اور وہ کسی حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔
عثمان خان کو بحالی کے پروگرام کے لیے کیوں چنا گیا؟
برطانیہ کی جیلوں میں ماہر نفسیات دہشتگردی کے الزام میں قید افراد کو نفیساتی طریقوں کے ذریعے ان کے رویے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عثمان خان کو بھی ایسے پروگرام کے لیے چنا گیا لیکن اس کے واضح اشارے موجود تھے کہ عثمان خان کی سوچ میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہو رہی ہے۔
رہائی سے آٹھ ماہ پہلے جب عثمان خان کا تجزیہ کیا گیا تو ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ عثمان خان جیل سے رہائی کے بعد دہشتگردی کی طرف لوٹ سکتا ہے اور اس سے معاشرے کو خطرات لاحق رہیں گے ۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر ایو چیچاویسیٹ نے اپنے تجزیے میں خبردار کیا کہ عثمان خان اپنے کیے پر نادم نہیں ہے اور وہ کسی ’’رتبے” کی تلاش میں ہے۔ انھوں نے جوڈیشل انکوئری کو بتایا کہ پریشان تھیں کہ اس سے کیسے پرامن رکھا جا سکتا ہے۔
کیا اس سے اور پوچھ گچھ ہوئی تھی؟
جب عثمان خان کو جیل سے رہا کیا گیا تو اسے ایک ہوسٹل میں رکھا گیا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ ایم آئی فائیو اس کی نگرانی کر رہی ہے۔ ایم آئی فائیو نے اس کی ارادوں کے حوالے ایک نئی تفتیش شروع کر رکھی تھی۔
لیکن دہشتگردی کے کسی منصوبے کی واضح اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے عثمان خان کے خلاف انکوائری ایم آئی فائیو کی اولین ترجیج نہ بن سکی۔
عثمان خان کو جیل کے باہر کیسے رکھا گیا؟
جیل سے رہائی کے بعد عثمان خان کو معلوم تھا کہ ملٹی ایجنسی پبلک پروٹیکسن ارینجمنڈ (MAPPA ) اس کی نگرانی کر رہی تھی۔
ایم اے پی پی اے وہ ادارہ ہے جو سنگین جرائم کے مرتکب افراد کی جیل سے رہائی کے بعد ان کی نگرانی کرتا ہے اور یقینی بناتا ہے کہ رہا ہونے والے ان شرائط کے تحت زندگی گذار رہے ہیں جن کے تحت انھیں جیل سے رہائی ملی ہے۔
عثمان خان کی سٹیفورڈشائر پولیس افسران سے تین ملاقاتیں ہوئیں۔ ان پولیس افسران کا دہشتگردی کے مجرموں سے نمٹنے کوئی تجربہ نہیں تھا۔
ایک سینئر پولیس افسر کو عثمان خان کی نگرانی پر مامور کیا گیا۔ اس آفیسر کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کے رویے کے بارے میں رپورٹ تیار کرے۔
پولیس اور پروبیش آفیسر کو معلوم تھا عثمان خان کا جیل میں ریکارڈ اچھا نھیں تھا لیکن انھیں اس بات کا عمل نہیں تھا کہ ایم آئی فائیو اس کے خلاف تحقیق کر رہی ہے
جیل سے رہائی سے ایک سال تک عثمان خان کوئی کام حاصل کرنےمیں ناکام رہا۔ انھوں نے ڈمپر ٹرک کو چلانے کی تربیت کی اجازت مانگی لیکن سکیورٹی خدشات کے باعث انھیں اس کی اجازت نہیں مل سکی تھی۔ ان کی نگرانی کرنے والے پنیل کا خیال تھا کہ عثمان خان ٹرک کو بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
اس کے بعد عثمان خان الگ تھلگ رہنے لگا اور زیادہ وقت کمپیوٹر پر گیم کھیلتے ہوئے گذراتا تھا۔ ایک بار جب پولیس افسران نے اسے کمپیوٹر گیم کھیلتے ہوئے اس کی تصویریں بنائیں تو وہ غصے میں آ گیا۔ پولیس افسر کا خیال تھا کہ وہ متشدد قسم کی گیمز کھیل رہا تھا جس کے بارے میں اس نے پولیس سے جھوٹ بولا تھا۔
عثمان خان کے لندن میں حملے سے دو ماہ پہلے تک نہ تو کوئی ایسی اطلاع موجود تھی کہ عثمان خان کسی حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور نہ ہی کوئی یقین دہانی کرائی جا سکتی تھی کہ اس کی سوچ میں کوئی بہتری آئی ہے۔
صرف ایک ہی فرق تھا کہ وہ اب بھی کیمبرج یونیورسٹی کے ’اجتماعی تعلیم‘ کے پراجیکٹ کے ساتھ منسلک تھا اور جب اس پروجیکٹ کی جانب سے اسے لندن آنے کی دعوت ملی تو اس نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کیا۔
اس نے اپنے پروبیشن آفیسر سے لندن جانے کی اجازت مانگی اور ایم اے پی پی اے پینل نے اسے لندن جانے کا اجازت دےدی۔
وہ بغیر کسی نگرانی کے لندن پہنچا جہاں نہ تو پولیس نے اس کو چیک کیا اور نہ اس کی تلاشی ہوئی۔ اگر ایسا ہوتا تو عثمان خان کے پاس موجود اسلحے کی نشاندہی ہو جاتی۔
ایم اے پی پی اے پینل کو کیا معلوم نہیں تھا؟
ایم آئی فائیو اور پولیس اور پروبیشن آفیسر کے درمیان ایک فاصلہ تھا۔ اس فاصلے کو برقرار رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ عثمان خان کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ اس کی خفیہ نگرانی کی جا رہی ہے۔
جوڈیشل انکوائری کو بتایا گیا کہ ایم آئی فائیو نے ویسٹ مڈلینڈ کی انسداد دہشتگردی پولیس کو بتایا تھا کہ ایسے خطرات موجود ہیں کہ عثمان خان اپنی پرانی روش پر واپس آ جائے اور شاید وہ کوئی حملہ کرنے کا منصوبہ بنائے۔
پولیس نے یہ اطلاع اس برانچ تک پہنچا دی جو ایم اے پی پی اے کی مدد کرتی تھی لیکن ایم اے پی پی اے کے پاس یہ معلومات نہیں پہنچیں کہ عثمان خان کسی حملے کی منصوبہ بندی کر سکاتا ہے۔
یہ اطلاعات (MAPPA) ایم اے پی پی اے تک کیوں نہ پہنچ سکیں یہ ایک معمہ ہے۔ سپیشل برانچ کے سب سے جونیئر افسر کے خیال میں اس کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ یہ اطلاع ایم اے پی پی اے تک پہنچائے اور اس کے لیے اسے اعلی افسران سے اجازت کی ضرورت تھی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اعلیٰ پولیس افسران کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ اطلاع ایم اے پی پی اے تک نہیں پہنچائی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ایم آئی فائیو کے افسران جب بھی (MAPPA) ایم اے پی پی اے کے اجلاس میں شریک ہوئے کسی افسر نے اس اہم اطلاع کی طرف اشارہ نہیں کیا۔
ایم آئی فائیو کے گواہ نے جوڈیشل انکوائری کو بتایا کہ ایجنسی کے پاس عثمان خان کے حوالے سے جو بھی اطلاعات تھیں اسے شیئر کیا تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ ایم آئی فائیو کے افسران کو بھی یہ احساس تھا کہ اہم اطلاع ایم اے پی پی اے تک نہیں پہنچی ہے۔