تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز/اے پی) ایرانی بحریہ کا ایک بڑا جہاز ’’خارک ‘‘ آگ لگنے کے بعد خلیج عمان میں ڈوب گیا ہے۔
ایران کی سٹوڈنٹس نیوز ایجنسی ( ایسنا) نے بدھ کے روز بتایا کہ جہاز میں آگ لگنے کے بعد عملہ بحفاظت وہاں سے نکل گیا۔ مزید بتایا کہ جہاز کو بچانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔
امدادی جہاز خارک بدھ کی صبح خلیج عمان میں آبنائے ہرمز کے قریب واقع ایران کی جنوبی بندرگاہ ’’جاسک ‘‘ کے نزدیک ڈوبا ہے۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایرانی بحریہ کا ایک بڑا جہاز خلیج عمان میں آگ لگنے کے بعد ڈوب گیا ہے۔ گزشتہ بیس گھنٹوں سے ‘خارگ / خارک‘ نامی اس جہاز کو بچانے کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ برطانیہ کے تیار کردہ اس بحری جہاز میں آگ لگنے کی وجوہات کی چھان بین جاری ہے۔ دو سو میٹر سے زائد طویل یہ جہاز ایران کے لیے تیل کے اہم ٹرمینل کا کام انجام دیتا تھا اور ایران کا سب سے بڑا بحری جہاز گزشتہ 40 برسوں سے فعال تھا۔ یہ بحری جہاز سمندر میں موجود دیگر جہازوں کی مدد اور بھاری مال برداری کی صلاحیت کا حامل تھا۔
ایرانی بحریہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق خلیج عمان میں بندرگاہ جاسک سے روانگی کے کچھ دیر بعد ہی اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ ایران کے سرکاری ٹیلی وژن پر نشر کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاز جل رہا ہے اور سیاہ دھواں اس میں سے اٹھ رہا ہے۔ کوئی مزید تفصیل فراہم دیے بغیر کہا گیا ہے کہ آگ جہاز کے ایک ‘سسٹم میں‘ لگی تھی۔ ایرانی اہلکار تقریبا بیس گھنٹوں تک اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ ناکام رہے اور بعدازاں یہ جہاز ڈوب گیا۔
تاہم اس دوران جہاز کے تمام عملے کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ بحریہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”آگ تیزی سے پھیل رہی تھی اور خارگ کو بچانے کا مشن ناکام ہو گیا، جس کے باعث وہ جاسک کے پانیوں میں ڈوب گیا۔‘‘
ایران نے سن 1976ء میں یہ بحری جہاز برطانیہ سے خریدا تھا۔ اس وقت ایران پر مغربی حمایت یافتہ رضا شاہ پہلوی کی حکمرانی تھی۔ لیکن یہ جہاز کافی مسائل اور مذاکرات کے بعد ایران کو 1984ء میں فراہم کیا گیا تھا کیوں کہ سن 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد ایران میں ایک نئی حکومت قائم ہو چکی تھی۔
یہ بحری جہاز کتنا اہم تھا؟
اوپن سورس ڈیفنس انٹیلیجنس فراہم کرنے والے جیریمی بنی کے مطابق خارگ ایران کے لیے انتہائی اہم بحری جہاز تھا کیوں کہ ایرانی جنگی جہازوں کی ری سپلائی کے لیے صرف اور صرف یہ ہی استعمال ہو سکتا تھا۔
دوسری جانب ایران نے کہا ہے کہ یہ بحری جہاز بین الاقوامی پانیوں میں ‘ٹریننگ مشن‘ پر تھا۔ ایرانی اسنا نیوز ایجنسی کے مطابق اس ٹریننگ مشن کے دوران ”تربیت، انٹیلیجنس اورجوابی کارروائی‘‘ پر توجہ مرکوز کی جا رہی تھی۔
یہ بحری جہاز جاسک کے قریب ڈوبا ہے اور جاسک آبنائے ہرمز کے بالکل قریب واقع ہے۔ آبنائے ہرمز کو تیل کی ترسیل کے لیے دنیا کا ایک اہم روٹ قرار دیا جاتا ہے۔
جاسک کا علاقہ ایران کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ایران یہاں ملک کا دوسرا برا آئل ایکسپورٹ ٹرمینل بنانا چاہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایران نے ایک ہزار کلومیٹر طویل پائپ لائن کے فعال ہونے کا اعلان کیا تھا، جو بوشہر سے جاسک تک آتی ہے۔ اس طرح ایران نے اپنے تیل کی برآمدات کے لیے آبنائے ہرمز کے علاوہ ایک نیا راستہ تیار کیا ہے۔
ماضی میں ایران کے متعدد شپنگ جہاز بظاہر حادثات کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی کا الزام اسرائیل پر بھی عائد کیا گیا۔ ابھی اپریل میں بھی بحیرہ احمر میں ایک ایرانی جہاز کو ‘نشانہ‘ بنایا گیا تھا اور میڈیا میں یہ رپورٹیں آئی تھیں کہ اسے اسرائیل نے تباہ کیا ہے۔ اس وقت بھی ایران نے اسے ایک حادثہ قرار دیا تھا لیکن نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ سویز جہاز کو جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا کیوں کہ اس سے پہلے ایران نے اسرائیلی جہازوں پر حملہ کیا تھا۔