لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پیغمبرِ اسلام کی توہین کے الزام میں سات سال سے جیل میں قید مسیحی جوڑے شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینوئل کے وکیل کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے اُنھیں بے قصور قرار دیتے ہوئے بری کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
سنہ 2014 میں اس جوڑے کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس وقت ان کے خلاف چلائے گئے مقدمے میں یہ الزام ثابت ہوا تھا کہ جس موبائل نمبر سے مقامی مسجد کے امام کو پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز میسیجز بھیجے گئے تھے وہ نمبر ان کے نام پر رجسٹر تھا۔
تاہم اُن کے وکیل ایڈووکیٹ سیف الملوک نے جمعرات کو بی بی سی کو بتایا ہے کہ عدالت نے استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوتوں کو ’ناقص‘ قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے مطابق استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ مذکورہ سِم کارڈ کا اس جوڑے سے کوئی تعلق تھا۔
اُنھوں نے اُمید ظاہر کی کہ اُنھیں ایک ہفتے میں رہا کر دیا جائے گا۔
پاکستانی قوانین کے مطابق اس فیصلے کے خلاف ملک کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
ان کے وکیل سیف الملوک نے توہینِ رسالت کے مقدے میں سزا پانے والی خاتون آسیہ بی بی کے مقدمے کی بھی پیروی کی تھی اور سزا کے خلاف اپیل میں فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آیا تھا۔
پاکستان میں توہینِ رسالت کی سزا موت ہے لیکن آج تک اس سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ تاہم ماضی میں بہت سے لوگوں پر یہ الزام لگنے کے بعد مشتعل ہجوموں نے ان کا قتل کیا ہے۔
شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینوئل کون ہیں؟
یہ غریب مسیحی خاندان پاکستان کے شہر گوجرہ سے تعلق رکھتا ہے۔ شگفتہ ایک کرسچن سکول میں نگراں کی حیثیت سے کام کرتی تھیں جبکہ ان کے شوہر شفقت معزور ہیں۔ اس جوڑے کے چار بچے ہیں
شگفتہ کے بھائی جوزف نے گذشتہ برس بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی بہن اور بہنوئی بے قصور ہیں اور انھیں یہ بھی نہیں پتا کہ آیا ان دونوں کے پاس اتنی تعلیم ہے بھی کہ وہ موبائل پر اس طرح کے میسج لکھ سکیں۔
جوزف کا کہنا تھا کہ ان کے بچے ‘ہر وقت روتے ہیں اور اپنے والدین کو یاد کر رہے ہیں، وہ ان سے دوبارہ ملنا چاہتے ہیں۔‘
اس وقت جوزف کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے انصاف ملے گا اور آسیہ بی بی کے خلاف مقدمے کے خلاف فیصلے سے انھیں مزید حوصلہ ملا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں توہینِ رسالت کے الزامات اکثر یا تو اپنی ’ذاتی دشمنیوں کا انتقام‘ لینے کے لیے لگائے جاتے ہیں یا پھر ’اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے کے لیے‘۔
پاکستان میں توہین رسالت کے مقدمات میں سزا اکثر اعلیٰ عدالتوں میں اپیل پر ختم کردی جاتی ہے۔ سنہ 2019 میں ایک دہائی تک سلاخوں کے پیچھے رہنے والی آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے بری کیا تھا اور وہ پاکستان سے کینیڈا منتقل ہوگئی تھیں۔ عدالت کے اس فیصلے پر ملک میں متعدد مذہبی جماعتوں کی طرف سے پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے تھے۔