نیویارک (ڈیلی اردو/بی بی سی) دنیا کے سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے مشتبہ اکاؤنٹس کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق فیس بک نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 40 فیس بک اکاؤنٹ، 25 فیس بک صفحات، چھ فیس بک گروپ اور 28 انسٹاگرام اکاؤنٹ ہٹا دیے گئے ہے جن کے بارے میں کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ فیس بک پر ‘منظم اور غیر مصدقہ رویے’ اپنانے جیسی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
تین جون کو شائع ہونے والی رپورٹ میں فیس بک نے کہا ہے کہ ہٹائے گئے نیٹ ورک میں ملوث افراد کا تعلق اسلام آباد اور راولپنڈی میں قائم ایک تعلقات عامہ یعنی پبلک ریلیشنز کمپنی ‘الفا پرو’ سے ہے۔
فیس بک کا اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نیٹ ورک میں سے ’چند کا تعلق اُسی نیٹ ورک سے ہے جن کو فیس بک نے اپریل 2019 میں ہٹایا تھا’ اور اُس وقت الزام عائد کیا تھا کہ ‘ان صفحات اور اکاؤنٹ کا تعلق پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پر آر کے اہلکاروں سے پایا گیا ہے۔’ تاہم 2019 کی فیس بک کی رپورٹ پر آئی ایس پی آر کے ذرائع نے رد عمل میں اُن تمام الزامات کی تردید کی تھی۔
May 2021 Coordinated Inauthentic Behavior Report https://t.co/gZo5ur1rVf
— Meta Newsroom (@MetaNewsroom) June 3, 2021
فیس بک ‘کووآرڈینیٹڈ ان آتھینٹک بیہیوئر'(سی آئی بی) کی اصطلا ح کی تعریف ایسے اکاؤنٹس کے طور پر کرتا ہے جو منظم طریقے سے چلائے جاتے ہیں اور ایک حکمت عملی کے تحت غیر مصدقہ رویے اپنا کر عوامی بحث و مباحثے کا رخ ایک مخصوص بیانیے کی جانب موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فیس بک نے اپنی اس رپورٹ کی تیاری میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تحقیق کرنے والی کمپنی گرافیکا کی مدد حاصل کی ہے۔
گرافیکا نے اس حوالے سے کہا ہے کہ وہ 2019 اور 2021 کے مختلف نیٹ ورکس میں کوئی ’براہ راست تعلق‘ تو قائم نہیں کر سکے لیکن ’عوامی طور پر موجود معلومات کی روشنی میں وہ الفا پرو اور آئی ایس پی آر کے درمیان متعدد روابط قائم کرنے کے شواہد‘ حاصل کر سکے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تحقیق کرنے والی کمپنی گرافیکا کے مطابق ان دونوں نیٹ ورکس میں مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں پاکستانی افواج کی بھرپور تعریف کرتے اور خراج تحسین پیش کرتے اور ساتھ ساتھ انڈیا مخالف مواد کی اشاعت کرتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سٹریٹجک حکمت عملی کے مقاصد ایک ہیں۔
بی بی سی کی جانب سے رابطہ کرنے پر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا جبکہ الفا پرو کی ویب سائٹ پر دیا گیا فون نمبر مسلسل بند آ رہا ہے اور ان کے فیس بک پیج پر بی بی سی کی جانب سے چھوڑے گئے پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
الفاپرو کا اس نیٹ ورک میں کیا کردار ہے؟
فیس بک کے لیے گرافیکا کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل مارکیٹنگ کمپنی الفا پرو کے لیے کام کرنے والے افراد کا تعلق ان اکاؤنٹس سے ثابت ہوا ہے جنھیں فیس بک نے معطل کیا ہے۔ ان میں سے کچھ تو براہ راست ان کے عملے کے اپنے اکاؤنٹس تھے، جبکہ کچھ فیس بک صفحات وہ تھے جو الفا پرو کی جانب سے تیار کیے گئے مواد کی تشہیر کر رہے تھے۔
گرافیکا کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کی جانب سےکچھ مخصوص بیانیوں کو فروغ دیا جا رہا تھا جن میں سے چند کی مثال مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان کے بارے میں فخریہ مواد
انڈیا کے خلاف تضحیک آمیز مواد
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی حمایت
ہندو قوم پرستوں کی جانب سے انڈیا میں اقلیتوں پر کیے گئے حملے
پاک چین اقتصادی راہدرای کے حق میں مواد
الفا پرو کمپنی، جن کا ایک دفتر اسلام آباد کے میڈیا ٹاؤن میں جبکہ دوسرا دفتر راولپنڈی کے صدر کے علاقے میں ہے، خود کو ‘سوشل میڈیا سروس’ کے طور پر متعارف کراتی ہے اور وہ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یو ٹیوب پر موجود ہے تاہم اس وقت ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل ہے جو گرافیکا کہ مطابق گذشتہ سال کسی وقت معطل کیا گیا تھا۔
گرافیکا کے مطابق الفا پرو 2016 سے قبل شادی کی تقریبات کا انعقاد کرنے کی کمپنی تھی اور ‘ویڈنگ مبارک’ نامی کمپنی کے دفتر کا پتہ وہی ہے جو الفا پرو کا ہے اور ماضی وہ ‘ویڈنگ بائی الفا پرو’ کے نام سے جانے جاتے تھے۔
گرافیکا کے مطابق الفا پرو 2016 سے قبل شادی کی تقریبات کا انعقاد کرنے کی کمپنی تھی اور ‘ویڈنگ مبارک’ نامی کمپنی کے دفتر کا پتہ وہی ہے جو الفا پرو کا ہے اور ماضی وہ ‘ویڈنگ بائی الفاپرو’ کے نام سے جانے جاتے تھے
گرافیکا کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیس بک نے جن اکاؤنٹس کو معطل کیا ہے ان میں سے ایک اکاؤنٹ الفا پرو کے مینیجنگ ڈائریکٹر کا ہے جبکہ ایک اور اکاؤنٹ اس شخص کا ہے جس نے خود کو دیگر پراجیکٹس میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
گرافیکا اپنی تحقیق میں لکھتی ہے: ‘بظاہر ملنے والے شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ جس بیانیے کو یہ نیٹ ورک فروغ دے رہا ہے وہ ان مفادات سے مماثلت رکھتا ہے جو الفا پرو کے گاہکوں کا ہے، مثال کے طور پر سی پیک کے بارے میں یا پاکستانی فوج کی تشہیر کرنا۔
الفا پرو کی پاکستانی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی ایک واضح مثال گذشتہ سال فروری میں نظر آئی جب ‘انونسبل ریزولوو’ (“Invincible Resolve”) کے نام سے بنائی گئی ایک 37 منٹ کی دستاویز جاری کی گئی جو کہ 2019 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے بارے میں ہے جس میں پاک فضائیہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
فیس بک نے جن مشتبہ اکاؤنٹس اور پیجز کی نشاندہی کی ہے ان کے درمیان روابط اور کوآرڈینیشن کے واضح اشارے ملے ہیں اور انھوں نے جعلی شناختوں اور عیاری سے صارفین کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کم از کم 12 فیس بک صفحات ایسے تھے جو خود کو پاکستان میں قائم میڈیا اداروں کے طور پر متعارف کراتے تھے حالانکہ وہ الفا پرو کی جانب سے پاکستان سے ہی چلائے جاتے تھے اور ان کا مقصد پاکستانی صارفین میں مخصوص سیاسی بیانیے کو فروغ دینا تھا۔
گرافیکا نے ان فیک میڈیا اداروں کے صفحات پر موجود ویڈیو مواد پر تحقیق کی تو معلوم ہوا جن جن نیوز اینکرز کی ویڈیوز شائع کی گئی تھیں وہ یا تو حکومت نواز صحافی تھے یا چند وہ لوگ تھے جنھیں کرائے پر فری لانس سکرپٹ پڑھنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔
ایک ‘اینکر’ جو متعدد ویڈیوز میں نظر آتے ہیں ان کا نام بظاہر تو ‘اینڈریو ہیملٹن’ ہے لیکن درحقیقت وہ ایک کیوبن نژاد امریکی اداکار ہیں جن کی بطور فری لانس خدمات 25 ڈالر کے عوض حاصل کی جا سکتی ہیں اور وہ کئی ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کر چکے ہیں۔
‘سیاسی گروپ آزادی صحافت کے نام پر اپنے مفادات کو فروغ دے رہے ہیں’
بی بی سی نے گرافیکا کے ڈائریکٹر انویسٹی گیشن جیک سٹبز سے اس رپورٹ کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح کمرشل مارکیٹنگ کمپنیاں آن لائن اثر و رسوخ کی مہم چلاتی ہیں۔
‘خود کام کرنے کے بجائے اسے کسی اور کے ذریعے کروانا آسان ہوتا اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ملوث سیاسی کرداروں کا اس آپریشن سے براہ راست تعلق ثابت نہیں ہوتا اور وہ کرائے پر لوگوں کو حاصل کرتے ہیں یا جعلی نیوز ادارے قائم کرتے ہیں اور یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سیاسی مقاصد اور اپنے مفادات کو فروغ دینے کے لیے آزادی صحافت کی اقدار کو استعمال کیا جاتا ہے۔’
اسی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے سٹین فورڈ انٹرنیٹ آبزرویٹری کی محقق شیلبی گروسمین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گمراہ کن خبروں کی مہم چلانے کے لیے پی آر کمپنیوں کا استعمال اب بڑھتا جا رہا ہے۔
فیس بک کی گذشتہ سال کی سی آئی بی رپورٹ پر کام کرنے والی شیلبی گروسمین نے مزید کہا کہ موجود آپریشن کی خاص بات تھی کہ اس بار پی آر کمپنی نے کسی اور کو کرائے پر حاصل کیا اور ان سے کام کروایا ‘جیسے اس کیس میں ہم نے امریکی اداکار کو دیکھا جسے نیوز اینکر کے طور پر استعمال کیا گیا۔’
’اس تحقیق کی مدد سے ہمیں ایک اور مثال ملتی ہے کہ کس طرح فری لانسرز کو اندھیرے میں رکھ کر ڈس انفارمیشن پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ روسی نواز کرداروں نے بھی ماضی میں بالکل اسی طرح گذشتہ امریکی انتخابات سے قبل گمراہ کن خبریں پھیلانے کے لیے امریکی فری لانسروں کی خدمات حاصل کی تھیں۔’