پشاور (ڈیلی اردو) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ ضیاء الحق کے دور آمریت میں امریکی پالیسیوں کے تناظر میں خیبر پختونخوا کی پر امن سرزمین کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا، قلم و کتاب کی جگہ ہماری نسلوں میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف کرانے کا سہرا اس وقت کے ڈکٹیٹر کے سر ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایڈورڈ کالج میں پختون کلچر ڈے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر انہوں نے مختلف سٹالوں کا دور کیا اور طلباء کی جانب سے تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کی غیر معمولی کاوشوں کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ چالیس برس کی مسلسل کوششوں کے بعد پختون ثقافت آپ تک پہنچی ہے جبکہ ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور آمریت میں ہمارے کلچر تہذیب و تمدن اور نصاب کے خلاف سازشوں کے پُل باندھے گئے اور دہشت گردی کو تقویت ملی،امن دشمنوں نے ہر طرح سے ہمیں ختم کرنے کی کوشش کی تاہم اے این پی کی حکومت نے اقتدار میں آ کر پختون ثقافت کو نئی زندگی بخشی جس کے نتیجے میں ہمارے سینکڑوں رہنما، ایم پی ایز اور کارکن شہید کر دیئے گئے۔
میاں افتخار حسین نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں لیکچررز کی پوسٹیں ختم کرنے کے ساتھ ساتھ نصاب تبدیل کر دیا گیا غرضیکہ ہر طرح سے پختونوں کے خلاف محاذ آرائی کا آغاز کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دھمکیوں کے باوجود جان ہتھیلی پر رکھ کر نشتر ہال کو نئے سرے سے کھول کر اپنی ثقافت کو زندہ کیا اور صوبے کے لیکچررز کی پوسٹیں بحال کیں،جن فنکاروں کو ڈرا دھمکا کر ان کی آواز سلب کر دئی تھی انہیں ہم نے نیا پلیٹ فارم فراہم کیا اور ساتھ ہی ان فنکاروں کیلئے اعزازیہ کا آغاز کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی احساسات و جذبات کی عکاسی کرنے والے ادبا و شعراء پر پابندی لگائی گئی تھی جسے اے این پی نے ختم کر کے قوم کی آواز بنایا ، علمی درسگاہوں کو ٹارگٹ کیا گیا،انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم اے این پی کا عظیم کارنامہ ہے جس کے بعد ہم نے صوبائی خودمختاری حاصل کی اور نصاب میں تبدیلی کی۔
انہوں نے کہا کہ پشتو زبان کو بارہویں جماعت تک لازمی قرار دیا گیا کیونکہ مادری زبان کی ترویج کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے والی قومیں منزل پر پہنچ پاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر ثقافت کا گلہ گھونٹنے والے در حقیقت امن کے دشمن تھے اور ایک سازش کے تحت پختونوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے لیکن آج ان کا کوئی نام لیوا نہیں۔
انہوں نے ایڈورڈ کالج کے پختون طلباء سمیت اساتذہ کرام کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ تعلیمی درسگاہ میری لئے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دہشت گردی کی نذر ہونے والا میرا اکلوتا بیٹا بھی اسی کال کا طالب علم تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر پختونوں پر ہونے والے مظالم کا حساب لیں گے اور پختونوں کے حقوق و حفاظت کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔