کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں گذشتہ دنوں ایک ہندو تاجر کے قتل کے واقعے کے بعد ایک ایسا پمفلٹ منظر عام پر آیا ہے جس میں دکانداروں سے کہا گیا کہ وہ خواتین کو اپنی دکانوں میں آنے کی اجازت نہ دیں۔
اس پمفلٹ میں تاجروں بالخصوص ہندو دکانداروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر کسی تاجر نے اپنی دکان میں خواتین کو آنے کی اجازت دی تو نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔
وڈھ پولیس نے اس پمفلٹ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحال یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ پمفلٹ جس تنظیم کی جانب سے جاری کیا گیا ہے اس کا تعلق کہاں سے ہے۔
یہ پمفلٹ وڈھ بازار میں ایک سائن بورڈ پر آویزاں کیا گیا تھا جبکہ اس کی نقول بعض دکانوں کے اندر بھی پھینکی گئی ہیں۔
وڈھ میں ہندو پنچایت کے رکن سنتوش کمار نے بتایا کہ ہندو تاجر کے قتل کے خلاف بطور احتجاج ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے تاجروں کی دکانیں بند تھیں تاہم انھیں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندو تاجروں کے علاوہ بعض مسلمان تاجروں کی دکانوں میں بھی اس پمفلٹ کی کاپیاں پھینکی گئی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ایک تو ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے تاجروں کو قتل کیا گیا جبکہ اس کے بعد اس پمفلٹ میں بھی ان کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جس کے باعث اُن کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تو پھر ہمیں کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ وڈھ میں ایک ہندو تاجر کے قتل کا واقعہ 31 مئی کو پیش آیا تھا جس کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا تاہم انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد احتجاج چھ روز بعد ختم کیا گیا تھا۔
پمفلٹ میں کیا کہا گیا ہے اور اس پر کس تنظیم کا نام تحریر ہے؟
وڈھ میں پرائیویٹ میڈیکل سٹورز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد اسلم شیخ نے بتایا کہ یہ پمفلٹ ایک سائن بورڈ پر نمایاں کر کے آویزاں کیا گیا تھا۔
اس پمفلٹ پر ہاتھ سے مضمون تحریر کیا گیا اور نیچے تلوار بنی ہوئی ہے جس پر ’کاروان سیف اللہ‘ لکھا ہوا ہے۔
محمد اسلم شیخ نے بتایا کہ دکانوں میں جو پمفلٹ پھینکا گیا ہے اس پر تحریر وہی ہے جو کہ سائن بورڈ پر آویزاں کیے گئے پمفلٹ پر ہے تاہم دکانوں میں پھنکے گئے پمفلٹ کے نیچھے کسی تنظیم کا نام نہیں ہے۔
اس پمفلٹ میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی خواتین کو گھروں سے بلاضرورت نہیں نکلنے دیں اور خصوصاً ان کو بازاروں میں گھومنے سے روکا جائے۔
پملفٹ کے متن کے مطابق خواتین کی بازاروں میں گھومنے سے بازار کا ماحول خراب ہوتا ہے۔
پمفلٹ میں مزید کہا گیا کہ ’خواتین ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی دکانوں میں زیادہ نظر آتی ہیں۔ اُن سے گزارش ہے کہ وہ خواتین کو قطعاً اپنی دکانوں میں آنے کی اجازت نہ دیں اور اجازت دینے کی صورت میں وہ خود نتائج کے ذمہ دار ہوں گے۔‘
کیا وڈھ بازار میں خواتین گھومنے آتی ہیں؟
وڈھ میں پرائیویٹ میڈیکل سٹورز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد اسلم شیخ نے بتایا کہ جہاں تک وڈھ کی مقامی خواتین کا تعلق ہے وہ اکیلی خریداری کے لیے بازار نہیں آتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی خواتین زیادہ تر علاج معالجے کے سلسلے میں بازار آتی ہیں لیکن اس وقت بھی ان کے مرد رشتہ دار ساتھ ہوتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ 2011 کے بعد جب وڈھ میں بدامنی کے واقعات پیش آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کے بعد سے یہ اس نوعیت کا دوسرا پمفلٹ ہے۔
اسلم شیخ نے بتایا کہ ہندو تاجر کے قتل کے واقعے کے خلاف لوگوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا اور شاید اس سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ پمفلٹ آویزاں کرنے کے علاوہ دکانوں میں پھینکا گیا ہو۔
ان کا کہنا تھا وڈھ میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد صدیوں سے آباد ہیں اور وہ انتہائی پرامن اور بےضرر لوگ ہیں۔
اسلم شیخ کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ہندو تاجروں سمیت مسلمان تاجروں کو مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کیا جاتا رہا ہے اور یہ دھمکی آمیز پمفلٹ بھی غالباً اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
سنتوش کمار نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ مقامی خواتین اپنے گھروں سے نہیں نکلتی ہیں اور انھیں کسی ناگزیر وجہ سے بازار آنا ہو تو بھی وہ اپنے مردوں کے بغیر نہیں آتی ہیں۔
پولیس کا موقف کیا ہے؟
جب اس سلسلے میں وڈھ پولیس کے ایس ایچ او عبد الرحیم سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پمفلٹ صرف ایک جگہ پر آویزاں کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں انفرادی سطح پر کسی تاجر سے اپنی دکان کے اندر پمفلٹ پھینکنے کی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
’بظاہر اس پمفلٹ کو کارواں سیف اللہ نامی تنظیم کی جانب سے آویزاں کیا گیا ہے لیکن وڈھ اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں پہلے کسی ایسی تنظیم کا نام نہیں سنا گیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ تاحال اس سلسلے میں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے تاہم اس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد ہندو تاجر کے قتل کے خلاف احتجاج کا خاتمہ
ہندو تاجر اشوک کمار کے قتل کا واقعہ وڈھ میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے کسی تاجر کے قتل کا دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے نو ماہ قبل ایک اور ہندو تاجر نانک رام کو قتل کیا گیا تھا۔
’بلوچستان میں خواتین کو احترام تو ملتا ہے، حقوق نہیں‘
اشوک کمار کے قتل کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور پہلے روز کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بند کرنے کے علاوہ وڈھ میں تاجروں نے دکانیں بطور احتجاج بند کی تھیں۔
وڈھ میں تمام دکانیں تین روز بند کی گئی تھیں تاہم ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے تاجروں نے تحفظ کی ضمانت دینے تک اپنا کاروبار بند رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وڈھ میں ایک بھوک ہڑتالی کیمپ بھی قائم کیا گیا تھا۔
تاہم سنیچر کو قتل کے خلاف احتجاج کے چھٹے روز ایک مرتبہ پھر تاجروں نے کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بند کیا گیا جس کے بعد ڈپٹی کمشنر خضدار ولی محمد بڑیچ اور ایس ایس پی خضدار ارباب امجد کاسی کے علاوہ دیگر حکام تاجروں سے مذاکرات کرنے وڈھ پہنچے تھے۔