کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبے سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ڈہرکی اسٹیشن کے قریب ٹرین حادثے کے نتیجے میں ابتک 51 مسافر ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔
ریلوے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ٹرین حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں ریلوے کے 4 ملازمین بھی شامل ہیں جن میں 2 پولیس اہلکار ہیں۔
پیر کی علی الصباح کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی چار بوگیاں گھوٹکی کی تحصیل اوباوڑو کے مقام پر پٹری سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر گر گئیں جس کے بعد پنجاب سے آنے والی سرسید ایکسپریس متاثرہ ٹرین کی ڈاؤن ٹریک پر موجود بوگیوں سے جا ٹکرائی اور اس کی بھی تین بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔
ڈپٹی کمشنر گھوٹکی عثمان عبداللہ کے مطابق حادثے کے زخمیوں کو میرپور ماتھیلو، صادق آباد، گھوٹکی اور اوباوڑو کے ٹراما سینٹر منتقل کیا جا رہا ہے۔
بعض زخمیوں کو ایمبولینسز کے بجائے ٹریکٹر ٹرالیوں میں قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جب کہ اب بھی کچھ مسافر بوگیوں میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
جائے حادثہ سے قومی شاہراہ کا فاصلہ تقریباً 20 کلو میٹر بتایا جاتا ہے۔ البتہ ریلوے حکام کی ریلیف ٹرین روہڑی اسٹیشن سے جائے وقوعہ پر پہنچ چکی ہے جس کے بعد بوگیوں کو ٹریک سے ہٹانے کا کام بھی شروع ہو گیا ہے۔
یلوے حکام کے مطابق حادثے کے بعد اپ اور ڈاؤن ٹریکس پر ٹرینوں کی آمد و رفت روک دی گئی ہے۔ ٹریکس کو کلیئر کرنے کے لیے ہیوی مشینری طلب کی گئی ہے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جائے وقوعہ پر ریلیف اینڈ ریسکیو آپریشن جاری ہے جس میں فوج اور رینجرز کے اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پنو عاقل سے فوجی ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس ایمبولینسز کے ہمراہ حادثے کے مقام پر پہنچ گئے ہیں جب کہ ریلیف اینڈ ریسکیو آپریشن کے لیے آرمی کی اسپیشل انجینئرنگ ٹیم بذریعہ ہیلی کاپٹر راولپنڈی سے متاثرہ مقام پر پہنچ رہی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے ٹرین حادثے پر ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ آج صبح پیش آنے والے واقعے میں مسافروں کی ہلاکت پر انہیں صدمہ ہوا ہے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ انہوں نے وزیرِ ریلوے کو جائے وقوعہ پہنچ کر زخمیوں کو طبی امداد یقینی بنانے اور ہلاک افرادِ کے اہلِ خانہ کے ساتھ تعاون کا کہا ہے۔
عمران خان کے بقول وہ ریلوے کو محفوظ بنانے کی راہ میں حائل خامیوں کی جامع تحقیقات کا حکم دے رہے ہیں۔
ماضی کی انکوائریاں
سابق ٹریفک کنڑولر کے مطابق ماضی میں ٹرین حادثات کی ہونے والی انکوائریاں، انکوائری رپورٹ کم اور الزام تراشی زیادہ رہی ہے۔ جس میں حکام ایک دوسرے پر ذمے داریاں ڈالتے رہے ہیں۔
اُن کے مطابق دنیا بھر میں کسی بھی حادثے کے بعد افراد کو موردِ الزام ٹھیرانے کے بجائے نظام میں موجود خامیوں کی نشان دہی کر کے اُن کی اصلاح کی جاتی ہے۔
اُن کے مطابق کسی بھی حادثے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور اُس میں کی گئی سفارشات پر من و عن عمل بھی ہونا چاہیے۔
حکومتی مؤقف
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے پاکستان میں ریلوے کے نظام اور باقی محکموں میں جو سرمایہ کاری ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں تمام ادارے تنزلی کا شکار ہیں۔
پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے اطلاعات نے کہا کہ پاکستان ریلوے میں مین لائن وَن (ایم ایل ون) 74 برسوں کے بعد ایک بڑا منصوبہ ہے۔ جس کو پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت لے کر آئی ہے۔ اُن کے بقول ایم ایل ون کے بعد پاکستان میں محکمہ ریلوے کے حالات بدل جائیں گے۔
حالیہ عرصے میں پیش آنے والے ٹرین حادثات
پاکستان میں مسافر ریل گاڑیوں کو پہلے بھی کئی حادثات پیش آ چکے ہیں۔ جن میں کئی بڑی نوعیت کے جب کہ بہت سے دیگر حادثات شامل ہیں۔
اکتوبر 2019 میں پیش آنے والے خوفناک حادثے میں رحیم یار خان کے قریب تیز گام میں بھڑکنے والی آگ کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد جھلس کر ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل جولائی 2019 میں اکبر ایکسپریس رحیم یار خان کے قریب مال گاڑی سے ٹکرا گئی تھی جس کے نتیجے میں 20 مسافر ہلاک اور 60 زخمی ہو گئے تھے۔
محکمہ ریلوے کے ریکارڈ کے مطابق حادثات سے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ ریلوے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
اِسی طرح نومبر 2016 میں کراچی کے لانڈھی ریلوے اسٹیشن دو ٹرینیں آپس میں ٹکرانے سے 31 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
نومبر 2015 میں گوجرانوالہ کے قریب ٹرین نہر میں جا گری تھی جس کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔
جولائی 2013 میں خان پور کے قریب ٹرین اور رکشے کے تصادم کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔