یروشلم (ڈیلی اردو/اے پی/ڈوئچے ویلے) اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے کسی سربراہ کی جانب سے عوامی طور پر اس طرح کے اعتراف کا اپنی نوعیت کا یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے رخصت پذیر سربراہ یوسی کوہن نے بالواسطہ طور پر کہا کہ ایران کے جوہری پروگراموں اور ایک سائنس دان پر حالیہ حملوں میں ان کے ملک کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے ایران کے دیگر جوہری سائنس دانوں کو بھی نشانہ بنائے جانے کی وارننگ دی۔
The outgoing chief of Israel’s Mossad intelligence service has offered the closest acknowledgment yet his country was behind recent attacks targeting Iran’s nuclear program and a military scientist. https://t.co/Tub4m5tfsq
— The Associated Press (@AP) June 11, 2021
موساد کے رخصت پذیر سربراہ یوسی کوہن نے جمعرات کے روز اسرائیل کے چینل 12 کے ایک تفتیشی پروگرام ‘عودہ‘ میں ایران کے جوہری پروگراموں اور اس کے ایک سائنس داں کو حالیہ دنوں میں نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے بعض اہم اشارے کیے۔
יוסי כהן בריאיון ראשון ובלעדי לאילנה דיין בעובדה: מדבר בגלוי לב על המאבק באירן וחמאס – והקרבה לנתניהוhttps://t.co/SbLMXVp3ae
— החדשות – N12 (@N12News) June 10, 2021
اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ غیر معمولی بات ہے کیونکہ کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی بالعموم اس طرح کے واضح بیانات نہیں دیتی ہے۔ موساد کے سربراہ کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا تقریباً چل چلاو ہے۔
’ایرانی سائنس داں نشانہ بن سکتے ہیں‘
ایسے وقت میں جب ویانا میں سفارت کار عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں، موساد کے سربراہ نے واضح لفظوں میں متنبہ کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے وابستہ دیگر سائنس دان بھی قتل کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
کوہن کا کہنا تھا ”اگر سائنس داں اپنا کیریئر تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں اور ہمیں کسی طرح کا مزید نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہیں تو ہم انہیں نظر انداز کر سکتے ہیں۔”
ایران پر بڑے حملوں کے تحت نطنز جوہری تنصیب کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ گزشتہ برس اس کے نیوکلیائی تنصیبات پر دو بڑے حملے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نطنز کا وہ انڈر گراونڈ ہال ہے جسے ہر طرح کے فضائی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہاں یورنییم کو افزودہ کیا جاتا ہے۔
جولائی 2020 میں نطنز کے ایڈوانسڈ سینٹری فیوج اسمبلی میں ایک پراسرار دھماکہ ہوا تھا۔ ایران نے اس کے لیے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ اس کے بعد اس سال اپریل میں بھی نطنز کے انڈر گراونڈ ہال میں ایک زبردست دھماکہ ہوا جس سے اس کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔
کوہن نے حالانکہ ان حملوں کے سلسلے میں براہ راست دعوی نہیں کیا لیکن ان حملوں میں اسرائیلی ہاتھ ہونے کا اشارہ کیا۔
اس موقع پر انٹرویو لینے والے صحافی ایلان ڈایان نے نطنز کے زیرزمین ہال میں ہونے والے دھماکوں کی تفصیلات بیان کیں اور کوہن نے ان کے بیانات کی کوئی تردید نہیں کی۔
ڈیان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ”جو شخص ان دھماکوں کے لیے ذمہ دار ہے، اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس نے اس امر کو یقینی بنایا تھا کہ ایرانیوں کو کس طرح کے ماربل کے سپلائی کی جائے جنہیں نطنز کے جوہری تنصیب میں ٹیبل کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ جب انہوں (ایرانیوں) نے اس ٹیبل کو نطنز میں تنصیب کیا تو انہیں اس کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس میں پہلے سے ہی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مادے موجود ہیں۔”
انٹرویو لینے والے نے محسن فخری زادے کی نومبر میں ہلاکت پر بھی بات کی۔ ایرانی سائنس داں محسن فخری زادے نے کئی دہائیوں قبل تہران کا فوجی جوہری پروگرام شروع کیا تھا۔ امریکی انٹلیجنس ایجنسیاں اور انٹرنیشنل اٹومک انرجی ایجنسی کا خیال ہے کہ ایران نے سن 2003 میں اس پروگرام کو ترک کر دیا تھا۔ ایران کا دیرینہ موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
کوہن نے گو کہ محسن فخری زادے کے قتل کے سلسلے میں کیمرے پر کوئی دعوی نہیں کیا تاہم ڈایان نے کہا کہ کوہن نے ”ذاتی طور پر اس پورے مہم کی نگرانی کی تھی۔”
موساد کے اقدامات
موساد کے سربراہ نے اسرائیل کی ان کوششوں کا بھی ذکر کیا جو یہودی ریاست نے ایرانی سائنس دانوں کو جوہری پروگرام میں شامل ہونے سے باز رکھنے کے لیے کیں۔ ان میں سے بعض کو بالواسطہ دھمکی دی گئی جس کے بعد انہوں نے اپنا پروگرام ترک کر دیا۔ جب انٹرویو لینے والے نے کوہن سے سوال کیا کہ کیا ایرانی سائنس دانوں کو ان مضمرات کا اندازہ تھا تو موساد کے سربراہ نے جواب دیا ”انہیں اپنے دوستوں کا انجام معلوم تھا۔”
ایران اسرائیل کی جانب سے حملوں کے متعلق اکثر شکایتیں کرتا رہا ہے۔ جمعرات کے روز ہی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی میں ایران کے سفیر کاظم غریب آبادی نے کہا کہ حالیہ واقعات نے ایران کو نہ صرف فیصلہ کن انداز میں جواب دینے کے لیے مجبور کردیا ہے بلکہ اس کے سامنے اس کے علاوہ کوئی متبادل باقی نہیں رہ گیا ہے کہ وہ شفافیت کے اپنے اقدامات اور تعاون کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے کوہن کے بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طورپر کوئی جواب نہیں دیا۔