کوئٹہ (ڈیلی اردو) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ اچھی طرز حکمرانی کے اصولوں کے تحت حکومت چلانا آسان نہیں ہوتا، ماضی میں عارضی بنیادوں پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے نظام چلانے کانتیجہ ہے کہ آج ہم ستر سال کے بعد بھی عوام کی جانب سے سہولتوں کی عدم دستیابی کے سوالوں کے سامنا کررہے ہیں۔
منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث کسی علاقے میں اسکول ہیں تو سہولتیں نہیں، ہسپتال ہیں تو آلات نہیں، جہاں سڑک کی ضرورت ہے وہاں سڑک نہیں اور جہاں ضرورت نہیں وہاں تین تین سڑکیں بنائی گئی ہیں، ان خرابیوں کے ساتھ نہ تو عوام کو مطمئن کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی صوبے کو ترقی دی جاسکتی ہے ۔
ان خیالات کا اظہارانہوں نے مالی سال 2019-20کے بجٹ کی تیاری کے سلسلے میں عوامی مشاورتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزراء، اراکین صوبائی اسمبلی، سول سوسائٹی کے نمائندے اور صوبائی حکام نے ورکشاپ میں شرکت کی۔
محکمہ خزانہ کے زیراہتمام منعقدہ ورکشاپ کے انعقاد کا مقصد آئندہ مالی سال کے بجٹ کو عوامی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا اور اس حوالے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی مشاورت کا حصول تھا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سیاسی حکومتوں کا کام فیصلے کرنا ہوتا ہے اور یہ فیصلے ایسے ہونے چاہئیں کہ ان میں عوامی خواہشات کا عکس نظر آئے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان نے گذشتہ دہائی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے، بدانتظامی، اداروں میں ابتری اورسیاسی اہداف کے حصول نے نظام کو مزید کمزور کیا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ترقی دینے کے لئے سب سے پہلے بلوچستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبے کی ترقی کی حقیقی ضروریات کا تعین کیا جاسکے، بدقسمتی سے فیصلہ اور پالیسی ساز جن میں سیاستدان اور بیوروکریسی شامل ہے ۔
کبھی بھی صوبے کے ستر فیصد علاقوں تک نہیں گئے اور نہ ہی عوامی ضروریات کے مطابق کمزور نظام کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی، انہوں نے کہا کہ جب تک نظام ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتا کوئی بھی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہوسکتی، منصوبہ بندی کا میکنزم ہوگا تو خدمات کی ادائیگی بھی ہوگی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم سب کو مل بیٹھ کر یہ سوچنا اور فیصلہ کرنا ہے کہ ہم آئندہ پانچ سے دس سالوں میں صوبے کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔
آئندہ آنے والے چند سالوں میں اگر صورتحال کو بہتر نہ کیا گیا تو اس کے اثرات کا سامنا ہمیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کو کرنا پڑے گا، انہوں نے کہا کہ سیاست اور گورننس اسٹریکچر کو علیحدہ کرنا ہوگا، ہم اپنے ذاتی کاموں اور علاج معالجہ کے لئے ماہر انجینئر اور ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں تاکہ بہتر نتائج ملے سکیں لیکن جب حکومت میں آتے ہیں تو صوبے کی ترقی اور اس کے مسائل کے حل کے لئے ایسی سوچ نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ نظام میں سرمایہ کاری کی جائے، پی ایس ڈی پی ایک پنڈورا بکس ہے، ہم آج تک پی ایس ڈی پی اور ملازمتوں کی فراہمی سے باہر نہیں نکلے ہیں، نہ تو صرف روزگار دینا حکومت کا کام ہے اور نہ ہی پی ایس ڈی پی کی کتاب بنانا، بلکہ ایسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس سے صوبے کے وسائل میں اضافہ ہو، سرمایہ کاری آئے، معیشت پھلے پھولے اور لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ کچھ فیصلے وقتی فائدہ تو ضرور دیتے ہیں اور ان کی واہ واہ بھی ہوتی ہے لیکن یہ دیرپا نہیں ہوتے اور ان پر عملدرآمد سے وسائل کا ضیاع بھی ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم عوام کے نمائندے ہیں اور عوامی مفاد کے فیصلے کرنا جن کا فائدہ عوام تک پہنچے ہماری ذمہ داری ہے، جلدبازی میں فیصلے کرنے سے ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
انہوں نے عوامی نمائندوں اور افسران پر زور دیا کہ وہ ایک اصول وضع کریں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مکمل معلومات حاصل کریں اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کریں کیونکہ یہ حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ فیصلے سے پہلے مشاورت کی جائے۔
انہو ں نے کہا کہ گذشتہ ساڑھے پانچ ماہ کے دوران ہم نے جس محکمے کی بریفنگ لی گورننس اسٹریکچر اور منصوبہ بندی کا فقدان نظر آیا، صورتحال یہ ہے کہ کوئی ماسٹر پلاننگ نہیں، سیوریج نہیں، بلڈنگ کوڈ نہیں، ٹریفک بیورو نہیں، فارسٹ ایکٹ نہیں اور نہ ہی ضروری قانون سازی کی گئی، ان خرابیوں کے ساتھ ہم صوبہ کس طرح ٹھیک کرسکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ عوامی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی کرنا ، میرٹ کے مطابق روزگا کی فراہمی کا طریقہ کار طے کرنا اور اس طرح کے دیگر امور عوامی نمائندوں اور پالیسی سازوں کو طے کرنا ہوتے ہیں، ہم نے ان تمام امور کو سامنے رکھا ہے اور اہم قانون سازی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے اہم چیلنج مالی وسائل میں اضافہ کرنا ہے اس وقت صوبے کی اپنی آمدنی صرف پندرہ ارب روپے ہے جبکہ ہمارا ترقیاتی اور غیرترقیاتی بجٹ تقریباً ساڑھے تین سو ارب روپے کا ہے، ہمارا پنشن بل اس وقت 23ارب روپے ہے جو چار سال بعد دو سو ارب روپے ہوجائے گا، ترقیاتی منصوبوں کا تھرو فارورڈ چار سو ارب روپے ہے، یہ وہ مالی مسائل ہیں جن کا سامنا ہم سب نے کرنا ہے اور کوئی بھی خود کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی محاصل میں اضافہ ناگزیر ہے کیونکہ آئندہ برسوں میں وفاق سے ملنے والی محاصل میں بھی کٹوتی ہوگی، ریکوڈک اور سیندک جیسے منصوبے اس وقت تک صوبے کے لئے فائدہ مند نہیں جب تک ان سے آمدنی شروع نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ترقیافتہ ممالک میں سول سوسائٹی کا اہم کردار ہوتا ہے جو حکومت کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرتی ہے، ورکشاپ کے انعقاد کا مقصد بھی سول سوسائٹی سے مشاورت کرنا ہے۔
صوبائی حکومت کی گذشتہ ساڑھے پانچ ماہ کی کارکردگی کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ٹھیک کرنے کی جانب توجہ مبذول کررکھی ہے اگر یہ دونوں شعبے صحیح معنوں میں کام کرنا شروع کردیں تو یہ صوبے پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
صوبائی حکومت مالی، انتظامی اور ترقیاتی اختیارات کو ڈویژنل اور ضلعی سطح تک منتقل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس سے عوام کے مسائل فوری حل ہوں گے اور ان کی ترقیاتی ضروریات ضلعی سطح پر پوری ہوسکیں گی، انہیں نوکریوں کے حصول کے لئے کوئٹہ نہیں آنا پڑے گا بلکہ ضلع کی سطح پربھرتیاں ضلعوں ہی میں ہوں گی، طویل المدتی اور وسط المدتی ترقیاتی منصوبہ بندی صوبائی سطح پر جبکہ مختصر مدتی منصوبہ بندی ضلع کی سطح پر ہوگی، مانیٹرنگ اور پلاننگ میکنزم کو بھی ضلعی سطح تک وسعت دی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ آئندہ مالی سال کے لئے ترجیحات کا تعین کرکے مالی وسائل کے مطابق فیصلہ سازی کی جائے گی،محکمہ منصوبہ بندی وترقیات اور دیگر ترقیاتی محکمے جاری منصوبوں اور نئی اسکیموں کے لئے فنڈز مختص کرنے کے میکنزم، عوامی ضروریات کے مطابق ہسپتال، اسکول ، سڑکوں اور آبنوشی کی اسکیموں کے منصوبوں کی تیاری کے لئے ضلعی سطح سے معلومات اور ڈیٹا کے حصول کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ نئی اسکیموں کے لئے فنڈز کے اجراء کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے منصوبوں کے فوری آغاز اور مقررہ مدت کے اندر تکمیل ممکن ہوسکے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم جو بھی فیصلے کریں گے وہ عوام کے وسیع تر مفاد میں ہوں گے۔
ہم ایسا بلوچستان چھوڑنا چاہتے ہیں جو آئندہ نسلوں کے لئے بہتر ہو، ورکشاپ سے صوبائی وزیر زمرک خان اچکزئی اور رکن صوبائی اسمبلی عبدالقادر نائل نے بھی خطاب کیا جبکہ ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ لعل جان جعفر ، ایڈیشنل سیکریٹری ٹو چیف سیکریٹر مجیب الرحمن، چیف آف سیکشن عارف حسین شاہ نے ورکشاپ میں پریزنٹیشن دی جبکہ سابق سیکریٹری خزانہ محفوظ احمد خان نے ورکشاپ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی۔