اسلام آباد (ڈیلی اردو) اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کو وکیل فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت اٹارنی جنرل کی استدعا پر 5 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
عدالت نے کلبھوشن کو وکیل فراہم کرنے کے لیے بھارت کو ایک اور مہلت دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ پاکستانی عدالتوں کے دائرہ کار سے متعلق بھارت کی غلط فہمی دور کرے اور بتائے کہ عدالتی کارروائی کا مقصد عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کو وکیل فراہم کرنے سے متعلق سیکریٹری قانون کی درخواست پر آج سماعت کرنی تھی جو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی استدعا پر ملتوی کر دی گئی۔
گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ بھارت نے پاکستانی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا ہے جس پر عدالت نے کلبھوشن کو وکیل فراہم کرنے سے متعلق بھارت کو ایک اور مہلت دیتے ہوئے حکومتِ پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھارت کو عدالتی کارروائی سے آگاہ کرے۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ بھارت عدالت میں پیش ہو کر عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق اپنے تحفظات سے آگاہ کر سکتا ہے۔ سیکریٹری قانون کی کلبھوشن کو وکیل فراہم کرنے کی درخواست گزشتہ سال اگست سے زیرِ سماعت ہے۔
کلبھوشن جادھو کیس: کب کیا ہوا؟
مارچ 2016 میں پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد اپریل 2017 میں پاکستان کی فوجی عدالت نے انڈین کمانڈر کلبھوشن جادھو کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔
انڈیا نے 8 مئی 2017 کو عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان کے خلاف جمع کرائی گئی درخواست میں دعویٰ کیا کہ پاکستان نے 1963 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس کی شِق 36 کے تحت کلبھوشن جادھو کو نہ ہی قونصلر رسائی دی گئی اور نہ ہی انھیں ان کے حقوق بتائے گئے۔
اسی روز انڈیا نے ایک اور درخواست میں یہ استدعا بھی کی تھی کہ جادھو کو اس کیس کے تمام نکات پر دلائل دیے بغیر سزائے موت نہ دی جائے اور اس ضمن میں لیے گئے تمام اقدامات کے بارے میں عدالت کو بتایا جائے۔
17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو کہا تھا کہ وہ مبینہ جاسوس کی سزائے موت پر نظرثانی کرے اور انھیں قونصلر رسائی دے۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو قونصلر تک رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن کی شق 36 کی خلاف ورزی کی ہے۔
جس کے بعد جولائی 2020 میں پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے کہا تھا کہ پاکستان میں زیر حراست مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو نے اپنی سزا کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے وہ اپنی رحم کی اپیل کے پیروی جاری رکھیں گے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ میں نیوز کانفرنس کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’کمانڈر جادھو کو والد سے ملاقات کروانے کی پیشکش کی ہے۔ انڈین حکومت کو مراسلہ بھجوا دیا گیا جبکہ کمانڈر جادھو کو دوبارہ قونصلر رسائی کی پیشکش پر انڈین حکومت کے جواب کا انتظار ہے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حالانکہ پاکستان کا قانون نظرِثانی کا حق فراہم کرتا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسڈریشن آرڈینسس 2020 نافذ کیا۔‘
اس آرڈیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ یہ اپیل کمانڈر جادھو خود، ان کا قانونی نمائندہ یا انڈین ہائی کمیشن دائر کر سکتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جو کیس پاکستان نے جیتا تھا اس کے فیصلے کے اہم نکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ویانا کنونشن برائے قونصلر روابط کی شِق 36 کے تحت کلبھوشن جادھو کو ان کے حقوق کے بارے میں بتایا جائے۔
اس کے علاوہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن کیس پر مؤثر نظرثانی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں جس میں اگر ضرورت پڑے تو قانون سازی کا نفاذ بھی شامل کیا جائے۔