اسٹاک ہوم (ڈیلی اردو/بی بی سی) آج سے تقریباً 76 سال قبل دنیا کے کسی ملک (جاپان) پر پہلی اور آخری بار ایٹم بم گرائے گئے تھے اور چھ اگست 1945 اور نو اگست 1945 وہ دو تاریخیں ہیں جو جوہری ہتھیاروں سے دنیا کے وجود کو لاحق خطرے کی طرف رہتی دنیا تک اشارہ کرتی رہیں گی۔
امریکہ نے چھ اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور نو اگست کو جاپان ہی کے شہر ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے۔ ایٹم بم انسانیت کو کس طرح تباہ کر سکتا ہے اس بات کے شواہد ہیروشیما اور ناگاساکی آج تک دے رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ 76 سال گزرنے کے بعد بھی جوہری حملے کے اثرات سے باہر نہیں آ سکے ہیں۔
اس تباہی کو آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود آج بھی دنیا کے نو ممالک کے پاس 13 ہزار سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں جو اُن ہتھیاروں میں سے ہر ایک ہتھیار اس سے کہیں زیادہ تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو دنیا نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں 76 برس قبل دیکھی۔
سویڈن کے تھنک ٹینک ’سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ (سپری) نے پیر کو اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق بہت سی اہم معلومات شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین اور پاکستان جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں انڈیا سے بہت آگے ہیں۔
ایس آئی پی آر آئی (سپری) کی رپورٹ میں کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:
سنہ 2021 کے آغاز میں جوہری صلاحیت کے حامل نو ممالک (امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس، اسرائیل، پاکستان، انڈیا اور شمالی کوریا) کے پاس تقریبا 13 ہزار 80 جوہری ہتھیار تھے، یہ ہتھیار اس تعداد سے کچھ کم ہیں جس کا اندازہ سپری نے سنہ 2020 کے آغاز میں لگایا تھا۔
ان میں سے 3825 ایٹمی ہتھیار فوری طور پر کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے تیار کہے جاتے ہیں۔ گذشتہ سال ان کی تعداد 3720 تھی۔
ان 3825 ہتھیاروں میں سے تقریباً دو ہزار جوہری ہتھیار امریکہ اور روس کے ہیں جنھیں ہائی الرٹ موڈ میں رکھا گیا ہے۔
اسرائیل کے پاس تقریباً 90 اور شمالی کوریا کے پاس 40-50 جوہری ہتھیار ہیں۔
شمالی کوریا نے گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً دس نئے جوہری ہتھیار بنائے ہیں اور اس وقت اس کے پاس 40-50 جوہری ہتھیار ہیں۔
چین نے گذشتہ سال کے مقابلہ میں 30 نئے جوہری ہتھیار بنائے ہیں اور اب ان کے پاس تقریبا 350 جوہری ہتھیار ہیں۔
پاکستان نے گذشتہ سال کے مقابلہ میں پانچ نئے جوہری ہتھیار بنائے ہیں اور اب اس کے پاس تقریباً 165 جوہری ہتھیار ہیں۔
انڈیا نے گذشتہ سال چھ نئے جوہری ہتھیار بنائے اور اب اس کے پاس تقریباً 156 جوہری ہتھیار ہیں
سپری کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد یہ سوالات مسلسل پیدا ہو رہے ہیں کہ مختلف ممالک میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد بڑھانے کا مقابلہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کے کیا خطرات ہو سکتے ہیں؟
انڈیا کے دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافے کو ’ریس یا مقابلہ‘ کہنا مناسب نہیں ہے۔
انھوں نے بی بی سی ہندی کے سندھو واسینی کو بتایا کہ ’ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری ایک مستقل عمل ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ملک اچانک جوہری ہتھیار بنانا بند کر دے اور کچھ عرصے بعد دوبارہ شروع کر دے۔‘
بیدی کہتے ہیں کہ ’اگر ہتھیاروں کی تیاری ایک بار رُک جاتی ہے تو دوبارہ ہتھیار سازی کے لیے ساری کارروائی پھر سے شروع کرنی پڑے گی۔ لہذا میری رائے میں اس کو مقابلہ قرار دینا مناسب نہیں ہو گا۔‘
ذریعہ: سپری رپورٹ 2021
اگر ہم انڈیا، پاکستان اور چین کی بات کریں تو یہ تینوں پڑوسی ممالک ہیں اور تینوں ایٹمی طاقت کے حامل ہیں۔
راہل بیدی کہتے ہیں کہ ’انڈیا، پاکستان اور چین کی صورتحال بہت انوکھی ہے۔ دنیا میں جوہری طاقت سے لیس بہت کم ممالک ایسے ہیں جن کے سرحدی تنازعات تقریباً ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ خواہ وہ فائرنگ کے ذریعے ہو یا کسی اور ذریعہ سے۔‘
بیدی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین وہ دو ممالک ہیں جہاں ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول بنیادی طور پر فوج کے ہاتھ میں ہے اور ایسے میں صورتحال انڈیا کے لیے اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایک اور بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور چین نہ صرف فوجی اتحادی ہیں بلکہ کسی نہ کسی طرح جوہری اتحادی بھی ہیں۔‘ راہل بیدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی حساس صورتحال میں جوہری اسلحے میں تخفیف کی بات صرف ایک ’نظریاتی خواب‘ ہی دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جوہری ماہر اور پاکستان سٹرٹیجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے سابق افسر بریگیڈیئر ریٹائرڈ نعیم سالک نے واضح کیا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے زیرانتظام (کنٹرول) کام کرتا ہے جو جوہری پالیسی سے متعلق فیصلہ سازی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔
’اس اتھارٹی کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں جبکہ چارفوجی افسران کے علاوہ چار وفاقی وزیراس کے ارکان میں شامل ہیں۔ان ارکان میں سے ایک چیف آف آرمی سٹاف ہیں لہذا فوج کے جوہری فیصلہ سازی پر اثرانداز ہونے کا کوئی امکان ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
دوسری جانب پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی اور جوہری اتحاد کے بارے میں بات کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار عمر فاروق کہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان گہرے فوجی سٹرٹیجک تعلقات قائم ہیں جو معلوم ذرائع کے مطابق فوجی اور سٹرٹیجک اہمیت کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مغرب اور دیگر ممالک کی طرف سے عائد کردہ الزامات پر یقین کر لیا جائے کہ پاکستان اور چین جوہری اتحادی ہیں، تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کی اپنی اہم ترین کامیابی چین کی مدد کے بغیر اور مغربی اداروں کے سینٹری فیوجز کی ٹیکنالوجی کے ذریعے یورینیم کی افزودگی کر کے حاصل کی ہے۔
’البتہ اس بات کہ واضح اشارے ہیں کہ پاکستان نے جوہری ڈیٹرنٹ کے اہم ترین جزو، یعنی زمین سے زمین میں مار کرنے والے میزائل، کی تیاری میں چین کی مدد حاصل کی۔ اُن میں سے کچھ میزائل مغربی انٹیلیجنس کے مطابق چینی میزائلوں کی تبدیل شدہ شکل ہے، اب پاکستان کے جوہری ڈیٹرنٹ کا اہم جزو یا حصہ ہیں۔‘
جوہری ہتھیاروں پر ضرورت سے زیادہ خرچ
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاں ایک طرف دنیا گذشتہ دو برسوں سے مہلک وبائی مرض کووڈ 19 سے لڑ رہی ہے وہیں دوسری طرف جوہری ہتھیاروں پر بے دریغ خرچ کیا جا رہا ہے۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی نوبل انعام یافتہ بین الاقوامی تنظیم ’انٹرنیشنل کمپین ٹو ایبولش نیوکلیئر ویپنز‘ (آئی سی اے این) کی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2020 میں جوہری صلاحیت والے ممالک نے صرف جوہری ہتھیاروں پر 72.6 ارب ڈالر خرچ کیے جو کہ سنہ 2019 کے مقابلے میں 1.4 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔
’کمپلیسٹ: 2020 گلوبل نیوکلیئر ویپنز سپنڈنگ‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وبائی امراض کی تباہ کاریوں، تباہ حال معیشت اور بگڑتے ہوئے صحت کے نظام کے باوجود حکومتیں کس طرح لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں کو دفاعی ٹھیکیداروں کو منتقل کر رہی ہیں۔
آئی سی اے این کے مطابق وبائی امراض کے دوران جوہری ہتھیاروں پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں امریکہ پہلے نمبر پر اور چین دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اس فہرست میں انڈیا چھٹے اور پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔
جوہری ہتھیار: کیا امن کے لیے ہیں؟
انڈیا کو ایٹمی صلاحیت سے لیس کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے اور ’میزائل مین آف انڈیا‘ کہلانے والے سائنسدان اے پی جے عبد الکلام نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیار دوسرے ممالک کو ہم پر حملہ کرنے سے روکتے ہیں لہٰذا وہ ’امن کے ہتھیار‘ ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کو اکثر ’ویپنز آف ڈیٹرنس‘ یعنی ’جنگ سے بچاؤ کا ہتھیار‘ بھی کہا جاتا ہے۔
دفاعی امور پر مبنی ایک نیوز ویب سائٹ ’ایوی ایشن اینڈ ڈیفنس یونیورس‘ کی ایڈیٹر سنگیتا سکسینا بھی اسی نظریے کی حامل ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جوہری ہتھیار کبھی بھی حملے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ان کا مقصد دفاعی ہوتا ہے۔‘
سنگیتا کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم انڈیا، پاکستان اور چین کے بارے میں بات کریں تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ ممالک کبھی بھی ایک دوسرے پر جوہری ہتھیاروں سے حملہ کریں گے کیونکہ تینوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد پر کشیدگی کے باوجود صورتحال ایٹمی حملوں تک نہیں آتی ہے اور یہ وجہ ہے جوہری ہتھیاروں کو ویپنز آف ڈیٹرینس کہتے ہیں۔‘
دفاعی میگزین ’فورس‘ کی ایگزیکٹیو مدیر غزالہ وہاب بھی سنگیتا سے متفق ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ انڈیا کی کبھی بھی پاکستان یا چین کے ساتھ جوہری جنگ کی نوبت آ سکتی ہے۔ جوہری ہتھیار جنگ میں استعمال ہونے کے مقصد کے لیے نہیں بنائے جاتے ہیں۔‘
’فورس‘ میگزین کے ایڈیٹر پروین ساہنی کا خیال ہے کہ چونکہ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے انڈیا اور چین کی ’پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی ہے‘ لہذا یہ خدشات خود بخود ایک حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس کے متعلق اسرائیل اور پاکستان کا مؤقف واضح نہیں ہے۔
’نو فرسٹ یوز پالیسی‘ کا مطلب ’ہماری طرف سے ایٹمی حملہ میں پہل نہ ہو گی‘ ہے۔
تاہم امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور شمالی کوریا جیسے ممالک ’پہلے استعمال نہ کریں گے‘ کی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں۔
’پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی‘ یعنی ’نو فرسٹ یوز‘ کے بارے میں بی بی سی کے سوال پر بریگیڈئیر (ر) نعیم سالک نے کہا کہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی اسے قبول نہیں کیونکہ یہ ڈیٹرنٹ انڈیا کی روایتی ہتھیاروں میں برتری کے مقابلے کے لیے بنایا گیا ہے۔
’ہمیں انڈیا کی روایتی ہتھیاروں کی صورتحال میں تبدیلی کو مدنظر اور ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ لہذا جب انڈیا نے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن متعارف کرایا تو ہمیں مختصر فاصلے پر مار کرنے والے میزائل اپنے دفاعی نظام میں شامل کرنے پڑے۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ ابہام ڈیٹرنٹ کی قدر کو مزید بڑھاتا ہے۔‘
پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں اس لیے تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ مغربی ممالک ’استعمال میں پہل نہ کرنے‘ کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ ساتھ ہی پروین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بارے میں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون سے ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں۔
انھوں نے کہا ’ایس آئی پی آر آئی کی رپورٹ ہر سال آتی ہے اور اس میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی ملک کے پاس اسلحہ زیادہ ہوتا ہے اور کسی کے پاس کچھ کم۔‘
’ایٹم بموں کی زیادہ تعداد سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تباہی کے لیے ایک بم ہی کافی ہے۔ لہذا تعداد سے زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے۔‘
اسی بارے میں دفاعی تجزیہ کار عمر فاروق کا کہنا تھا کہ جب 2002 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے ہوا تو انڈیا نے اپنی فوج کو حرکت دی اور جواب میں پاکستان نے اپنی بری افواج تیار رہنے کا حکم دیا۔
’اس فوجی نقل وحرکت پر اٹھنے والے اخراجات بہت ہی زیادہ اور پاکستانی حکومت کے لئے مہنگے ترین ثابت ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی بری فوج کا بڑا حصہ مغربی سرحد پر شمال مغربی خطے میں عسکریت پسندی کو ختم کرنے میں مصروف تھا۔ اس صورتحال نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو اپنی جنگی منصوبہ بندی میں شامل کرے۔‘
عمر فاروق کہتے ہیں کہ اول دن سے پاکستان نے یہ واضح کیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل پر پابندی اسے قبول نہیں اور یہ بنیادی طورپر بھارت کی روایتی ہتھیاروں میں برتری کے خوف کی وجہ سے ہے۔
تو کیا دنیا کو ایٹم بم سے کوئی خطرہ نہیں ہے؟
ایٹمی ہتھیاروں کو ’ہتھیاروں کا ڈیٹرنس‘ اور ’امن کے ہتھیار‘ قرار دینے کے بعد بھی ماہرین ایٹمی بموں کی وجہ سے دنیا میں موجود خطرات سے پوری طرح انکار نہیں کر سکتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ماہرین کے ذریعہ ’ڈیٹرنس‘ کے نظریہ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ عالمی سلامتی کے معاملے پر کام کرنے والی تنظیم ’بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس‘ میں شائع ایک مضمون کے مطابق جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ڈیٹرنس کا اصول اب بے محل ہو گیا ہے۔
ان کی ویب سائٹ پر جاپانی رہنما اور ہیروشیما کے گورنر ہیدے ییکو یوزاکی نے ’اے میسیج فرام ہیروشیما آن دی ریئلٹی آف ایٹومک بمبنگ‘ کے عنوان کے تحت ایک مضمون لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دیٹرنس کا نظریہ سرد جنگ کے زمانے کا ہے جب امریکہ اور سوویت یونین کے مابین نظریات کی جنگ جاری تھی۔
یوزکی کے بقول: ’جوہری ڈیٹرنس کا نظریہ غیر یقینی پیش گوئیوں پر مبنی ہے۔ موجودہ وقت میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی اور جغرافیائی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا ہے کہ جوہری ڈیٹرنس کا نظریہ مستقبل میں مکمل طور پر جوہری جنگ کے امکان کو ختم کرتا ہے۔‘
پچھلے مہینے ہی برطانیہ کے تھنک ٹینک ’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز‘ (آئی آئی اے ایس) نے ’جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر ڈیٹرنس اور استحکام: احساسات اور حقائق‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فروری سنہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے مابین کشیدگی جس سطح کو پہنچ گئی تھی اگر دونوں ممالک کے مابین کوئی بڑی ’غلط فہمی‘ پیدا ہو جاتی تو جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس رپورٹ کے مرکزی مصنف اور آئی آئی ایس ایس کے فیلو انتونیو لیوسکس کے مطابق: ’انڈیا اور پاکستان اپنی ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں میں مستقل ترقی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے جوہری دفاع کو خطرناک حد تک کم شمار کر رہے ہیں۔‘
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کی حیثیت سے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت انڈیا کی سلامتی کے لیے چیلنجز پیدا کر رہی ہے۔
ان تمام دلائل کے تناظر میں سنگیتا سکسینا کا خیال ہے کہ چین یقینی طور پر انڈیا کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی فوجی اور ایٹمی صلاحیت انڈیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ تاہم وہ اس بارے میں پاکستان سے زیادہ پریشان نہیں ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کا خطرہ کیسے کم ہو گا؟
اقوام متحدہ کے انسٹیٹیوٹ فار ڈس آرمامنٹ ریسرچ (یو این آئی ڈی آئی آر)، سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی)، جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی مہم (آئی سی اے این) اور رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز جیسے تھنک ٹینک اور تنظیمیں جوہری ہتھیاروں کے خطرات کو کم کرنے کے لیے مستقل طور پر کام کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ جوہری ہتھیاروں کو محدود کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً معاہدے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ مثلا:جزوی تجربہ پر پابندی کا معاہدہ (PTBT)، جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ (NPT)، اینٹی بیلسٹک میزائل معاہدہ (ABMT)، جوہری تجربات پر وسیع اور جامع پابندی کا معاہدہ (CTBT)۔ بہرحال یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام جوہری طاقتیں ان معاہدوں پر دستخط کرنے پر راضی ہیں۔
کیا 1998 کے ایٹمی دھماکوں نے انڈیا اور پاکستان کو روایتی جنگ سے روک رکھا ہے؟
انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز نے جوہری خطرات کو کم کرنے کی تجاویز میں کہا ہے کہ اس کے لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے رہنماؤں کو آپس میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا، قیادت کو سفارتی حل کی راہیں تلاش کرنی ہوں گی اور عملی انداز اپنانا ہو گا۔
دفاعی امور کے ماہر راہل بیدی بھی اس سے متفق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جوہری خطرے کو کم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پرتشدد معاملات کو سفارتی بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے، کیونکہ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کب پر تشدد تنازع خطرناک شکل اختیار کرلے گا۔‘
ویسے جب تک دنیا میں جوہری ہتھیار موجود ہیں ان سے وابستہ خوف بھی موجود ہیں۔ جیسا کہ نوبل انعام یافتہ امریکی سائنسدان جارج والڈ نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیار ہمیں باہمی تباہی کا خوف دلاتے ہیں اور باہمی تباہی کا خوف بھی خوف ہی ہوتا ہے۔