پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں نے قبائلی علاقوں کو شدت پسندوں کیلئے ’جنت‘ سے ’جہنم‘ میں بدلا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’جون 2004 کے ایک گرم دن پشتون قبائلی (نیک محمد) جنوبی وزیرستان میں مٹی سے بنے ایک گھر میں موجود تھے اور سیٹلائٹ فون کے ذریعے ایک صحافی سے بات کر رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ کس طرح وہ جنگ لڑ رہے ہیں اور انھوں نے مغرب میں واقع پہاڑوں میں پاکستان آرمی کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ سیٹلائٹ فون پر ہونے والی اس گفتگو کے دوران انھوں نے وہیں موجود اپنے ایک ساتھی سے سوال کیا کہ اُن کے سروں پر اُڑتا ہوا یہ عجیب، دھاتی پرندہ کیا ہے؟‘

’اس گفتگو کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ایک میزائل عین اس جگہ پر آ کر لگا اور نیک محمد اور اس کے ساتھ موجود کئی افراد ہلاک ہو گئے، جن میں دس اور 16 برس کی عمر کے دو لڑکے بھی تھے۔ نیک محمد کی ایک ٹانگ بھی اس کے جسم سے الگ ہو گئی۔‘

پاکستان کے قبائلی علاقے میں ہونے والے اس پہلے امریکی ڈرون حملے کی یہ کہانی اس واقعے کے تقریباً 10 سال بعد اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بیان کی گئی۔

افغان سرحد کے قریب جنوبی وزیرستان میں پاکستانی طالبان کے کمانڈر نیک محمد پر حملہ کس نے اور کیسے کیا، یہ بات اُس وقت کسی کے علم میں نہیں تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک کسی کو ڈرون حملوں اور اُن کی صلاحیت کے بارے میں علم نہ تھا۔

اس واقعے کے بارے میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس وقت دعویٰ کیا کہ پاکستانی فوج پر حملوں میں ملوث شدت پسند رہنما نیک محمد کو نشانہ بنانے والا میزائل پاکستان آرمی نے چلایا تھا۔ فوج کے اس وقت کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے کہا کہ ’ہم اس (نیک محمد) کا تعاقب کر رہے تھے اور ہماری افواج نے گذشتہ شب اسے ہلاک کر دیا۔‘

تاہم انھوں نے اس راز سے پردہ نہ اٹھایا کہ نیک محمد کا سراغ کیسے لگایا گیا اور درحقیقت اُن کا پتہ چلانے والا تھا کون؟

پاکستانی میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں گردش میں تھیں کہ طالبان کمانڈر کو ڈھونڈنے میں امریکیوں نے پاکستان آرمی کی مدد کی۔ لیکن پھر بھی میڈیا کی خبروں میں امریکی سی آئی اے کے ڈرونز کے بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں تھی کیونکہ اس وقت تک کسی کو اس بارے میں معلومات ہی میسر نہیں تھیں۔

یہ ڈرون حملہ آنے والے ماہ و سال میں آخری ثابت نہ ہوا کیونکہ صدر بُش انتظامیہ پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ القاعدہ اور طالبان کی پاکستان میں روپوش قیادت کو نشانہ بنایا جائے جو امریکی فوجی کارروائی کے نتیجے میں افغانستان سے بھاگ کر سرحدی دیہات اور قصبوں میں چھپ گئی ہے۔

نیک محمد نہ صرف مغرب میں واقع پہاڑوں میں پاکستانی آرمی کے دستوں سے لڑ رہے تھے بلکہ انھوں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں امریکی فوجی دستوں پر حملے کرنے کے بھی دعوے کیے تھے۔

اس وقت امریکی انتظامیہ یا اس کے کسی محکمے نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ انھوں نے پاکستانی قبائلی علاقوں میں فوجی ڈرون سے حملے کرنے کا پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون کا استعمال اور پاکستان کی لاتعلقی

آنے والے مہینوں اور برسوں میں قبائلی علاقوں میں دہشت گرد ٹھکانوں پر امریکی سی آئی اے کے ڈرون میزائل حملوں کی رفتار اور تعداد مزید تیز ہوتی چلی گئی۔

ان میں سے زیادہ تر ڈرون حملے صدر بش کے دوسرے دور جبکہ صدر اوباما کے دونوں ادوار کے دوران ہوئے۔ اپنے دو ادوار کے دوران صدر بش نے پاکستان میں مجموعی طور پر 48 حملوں کی اجازت دی تھی۔ جنوری 2009 میں صدر بننے کے بعد صدر باراک اوباما نے فوری طور پر ڈرونز کو بنیادی قومی سلامتی کا اپنا ہتھیار بنا لیا۔

سنہ 2010 کے وسط تک ڈرون حملوں کے پروگرام کی رفتار 40 دن میں ایک حملے سے اوسط چار دن میں ایک حملے تک پہنچ گئی۔

جون 2013 کے اوائل تک پاکستان میں 309 حملے کرنے کی اجازت پہلے ہی دی جا چکی تھی۔ یہ صدر بش کے آٹھ سال کی حکومت کے تمام دور میں کیے جانے والے حملوں سے چھ گنا زیادہ تھی۔

مختلف معتبر ذرائع سے جمع کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 2004 سے جون 2013 کی ابتدا تک پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں میں 2021 لوگوں سے لے کر 3350 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اوباما دور میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 1663 سے 2781 تھی، جو بش انتظامیہ کے دور کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تھی۔

یہ بات ’ڈرون وارز‘ (ڈرون جنگ) کے عنوان سے شائع والی 2013 کی رپورٹ میں بتائی گئی جو پیٹر بیرگِن اور جینی فر رآو لینڈ کی ہے۔

اس مہم کے ابتدائی برسوں میں ڈرون حملوں پر پاکستانی حکام کا ردعمل زیادہ تر خاموشی کی صورت میں تھا تاہم قبائلی علاقوں میں سی آئی اے کی قیادت میں ڈرون حملوں پر پاکستانی حکام کا بیانیہ اس وقت ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو گیا جب قبائلی علاقے عملی طور پر ’قتل گاہ‘ بن گئے اور ان حملوں کے نتیجے میں مشتبہ افراد کے ہمراہ ایک بڑی تعداد میں معصوم شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

پاکستانیوں نے ذرائع ابلاغ میں شدید احتجاج شروع کر دیا اور سرکاری و عوامی سطح پر پاکستان معاشرے میں ڈرون حملوں کی شدید مخالفت میں اضافہ ہونے لگا۔

عین یہ ہی وہ وقت تھا جب امریکی حکام نے پاکستانی اور امریکی انٹیلیجنس سروسز میں سی آئی اے کی قیادت میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون پروگرام کے بارے میں پس پردہ موجود مفاہمت سے پردے اٹھانا شروع کر دیے۔

سنہ 2013 میں نیویارک ٹائمز نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی، جس میں رپورٹ لکھنے والے نے دعویٰ کیا کہ سینیئر امریکی انٹیلیجینس حکام سے انٹرویو میں انھوں نے اس پہیلی کا راز پا لیا ہے۔

’اے سیکرٹ ڈیل آن ڈرونز، سیلڈ اِن بَلَڈ’ (خون سے سربمہر ڈرونز پر خفیہ سمجھوتہ) کے عنوان سے لکھی جانے والی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ امریکی انٹیلیجینس حکام نے پاکستانی آئی ایس آئی کو یہ (ڈیل) پیشکش کی کہ دہشت کی علامت طالبان رہنما نیک محمد کو ہلاک کرنے کے بدلے پاکستان سی آئی اے کو ڈرون اڑانے کے لیے پاکستانی اڈے دینے کا سمجھوتہ کرے گا۔

رپورٹ کے مصنف مارک مزیٹی نے لکھا کہ اس میزائل حملے سے قبل اس وقت کے اسلام آباد میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف اور آئی ایس آئی چیف کے درمیان براہ راست رابطہ (کمیونیکیشن) تھا۔

’آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے مبینہ طور پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں تمام ڈرون پروازیں سی آئی اے کی خفیہ کارروائیوں کی ایکشن اتھارٹی کے ماتحت ہوں گی۔ مطلب یہ کہ امریکہ کبھی میزائل حملوں کو تسلیم نہیں کرے گا اور پاکستان ہلاک ہونے والے افراد سے متعلق یا تو کریڈٹ (ذمہ داری اور فائدہ) لے گا یا پھر خاموش رہے گا۔‘

تاہم پاکستانی فوجی حکام آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان اس ملاقات یا ڈرونز کے پاکستان کے اندر استعمال کے بارے میں معاہدے یا ’انڈرسٹینڈنگ’ کے بارے میں اطلاعات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

اس وقت ’فاٹا’ کہلائے جانے والے قبائلی علاقوں کے اہم ذمہ دار افسر بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج اور انٹیلیجینس کی قیادت کا ان ڈرون حملوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’امریکیوں نے ہماری قیادت سے اس بارے میں کسی اطلاع یا ٹیکنالوجی کا تبادلہ نہیں کیا۔‘

نیک محمد ڈرون حملے کا نشانہ بننے سے قبل کس کے ساتھ سیٹلائٹ فون پر کیا بات کر رہے تھے اس بارے میں امریکیوں کے پاس تفصیلات موجود ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ڈرون محض فوجی ہتھیار نہیں بلکہ انھیں دشمن کی جاسوسی کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ کیونکہ اس حملے میں کوئی ایسا شخص زندہ نہیں بچا تھا جو اس وقت ہونے والی گفتگو کی پوری داستان بیان کرتا کہ اس وقت نیک محمد کیا کر رہا تھا اور وہ کیا گفتگو کر رہا تھا۔

یہ تمام اطلاعات نیویارک ٹائمزکی خبر میں شامل تھیں اور خبر لکھنے والے کے مطابق یہ تحریر ان پس پردہ انٹرویوز سے تیار ہوئی جو امریکی انٹیلیجینس حکام سے کیے گئے تھے۔

حملہ کرنے کی صلاحیت والے ڈرونز کا پس منظر

بغیر پائلٹ، ریموٹ کنٹرول سے اڑنے والے ڈرون جنگ عظیم دوم کے وقت سے استعمال میں ہیں۔ سنہ 1995 میں انھیں جدید بنایا گیا اور بنیادی تبدیلیوں کے عمل سے گزارا گیا۔ بغیر پائلٹ کے اڑتی یہ جدید مشینیں (اَن مینڈ ائیر وہیکلز۔یو اے ویز) سان ڈیاگو کے دفاعی ٹھیکیدار جنرل اٹامکس نے تیار کیں۔ اس میں ایک نئی چیز ویڈیو کیمرے تھے۔

فوجی ایک عرصے سے اس تمنا کو دل میں پالے ہوئے تھے کہ کوئی ایسی صورت بن جائے کہ وہ پہاڑوں سے پار دیکھنے کی صلاحیت حاصل کر لیں۔ پائلٹ کی مدد سے اڑنے والے جہازوں نے یہ صورت پیدا کر دی۔ خانہ جنگی (سول وار) میں گیسی غباروں کے استعمال سے لے کر بیسویں صدی میں طیاروں تک یہ خواب پورا ہوا لیکن اس میں پائلٹ اور ایندھن کے ختم ہونے کا مسئلہ تھا۔ سیٹلائٹ نے ایک نئی حیرت انگیز دنیا آباد کر دی لیکن اس کے استعمال پر لاگت بہت زیادہ آتی ہے۔

ان کی تعداد بھی کم تھی اور وہ ہر وقت وہاں نہیں ہوتے جہاں ان کی ضرورت ہوتی تھی۔ ‘یو اے ویز’ نے جنگ کے سالاروں کو 60 میل تک دیکھنے کی ایک کھڑکی مہیا کر دی جو زیادہ یا کم دیر تک پرواز کر سکتے تھے۔ یہ بارہ گھنٹے کی پرواز کر سکتے تھے۔ بعد میں اس ڈرون کا نام ‘پریڈیٹر’ یا شکاری رکھا گیا۔ ‘پریڈیٹر’ جلد ہی امریکی فوج کے لیے نگرانی کا ترجیحی ہتھیار بن گیا۔

سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور سنہ 1998 میں افریقہ میں دو امریکی سفارت خانوں میں دھماکوں کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹھہرانے کے بعد سنہ 2000 میں پریڈیٹر کا مشن تھا کہ وہ افغانستان میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرے۔

حملہ کرنے میں حائل پیچیدگیوں کے علاوہ فوجی دستوں اور عام شہریوں سے متعلق خطرات کے پیش نظر انٹیلیجینس کی بنیاد پر کی جانے والی یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔ مایوسی اور جھنجلاہٹ میں امریکی قومی سلامتی کے حکام نے دریافت کرنا شروع کیا: ’ہم ڈرون پر میزائل کیوں نہیں رکھ سکتے؟‘

میزائلوں سے لدے ڈرونز کے ابتدائی تجربات 2001 میں مکمل ہوئے اور ستمبر 11 کے حملوں کے فوری بعد ہتھیاروں سے لیس پہلا ‘پریڈیٹر’ کابل اور قندھار پر پرواز کر رہا تھا جس پر ‘ہیل فائر’ (جہنم کی آگ) میزائل نصب تھے۔ یہ پریڈیٹر کا ‘ایم کیو۔وَن ایل’ ڈیزائن تھا۔

مجموعی طور پر اس نے افغانستان میں 261 پروازیں کیں۔ یہ کل 2700 گھنٹے بنتے ہیں، جس کے بعد امریکی فضائیہ نے اسے 2003 میں فضائی اور خلائی عجائب گھر کو عطیہ کر دیا۔

اس سے بڑی پیش رفت اور اہم شاہکار ابھی سامنے آنے کو تھا۔

شروع کے ڈرون میں زمین کا منظر صرف اسے چلانے والوں (آپریٹرز) کو دکھائی دیتا تھا۔ اس اثنا میں افغانستان اور عراق میں امریکی جنگ جاری تھی۔ ڈرونز کے کیمروں اور سینسرز (آواز سننے والے آلات) کو گلوبل ٹیلی کمیونیکشن سسٹم (عالمی مواصلاتی نظام) سے جوڑ دیا گیا۔ پوری دنیا میں کہیں بھی اس کے ذریعے براہ راست تمام منظر دیکھنا اور میزائل سے نشانہ لگانا ممکن ہو گیا۔

اس پیش رفت سے پائلٹ عملی طور پر جنگ کے خطرات سے محفوظ ہو گیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میزائل حملے کے لیے یہ ڈرون نواڈا میں امریکی فوجی اڈے میں کمپیوٹر سے اسی طرح اڑائے جاتے جیسے ویڈیو گیم۔ مزید یہ کہ جن پر حملہ کیا جا رہا ہے، ان سے کسی جوابی ردعمل کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔

سب سے جانے مانے فوجی ڈرونز لڑائی میں استعمال ہونے والے بڑے ڈرون ہیں جنھیں امریکہ استعمال کرتا ہے۔ یہ سب امریکی سرزمین سے استعال ہوتے ہیں، پائلٹ سیٹلائٹ سے رابطے کے ذریعے انھیں اڑاتے ہیں۔ پریڈیٹر اور اس سے بڑے اور نئے کزن کا نام ‘ریپر’ (فصل کاٹنے والا) ہے۔

درمیانی بلندی، زیادہ دیر تک پرواز کرنے اور بغیر پائلٹ کے یہ دونوں ڈرون امریکی کمپنی جنرل اٹامکس نے بنائے ہیں۔ یہ دونوں مسلح اور ان ممالک میں ماورائے عدالت قتل کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جہاں امریکہ نے سرکاری یا باضابطہ طور پر جنگ کا اعلان نہیں کر رکھا۔

ریپر مختلف قسم کے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ لیزر سے رہنمائی لینے والے بموں سے بھی لیس ہے۔ یہ ایک ہزار میل سے زائد پرواز کر سکتا ہے اور بغیر رُکے 14 گھنٹے اڑ سکتا ہے۔ امریکہ کے علاوہ دیگر کئی ‘نیٹو’ فضائی افواج جو ریپر استعمال کر رہی ہیں، ان میں برطانیہ، سپین، فرانس اور نیدر لینڈز شامل ہیں۔ اس کے مدمقابل چین کا تیار کردہ ‘سی ایچ۔4’ جو شکل میں ریپر سے ملتا جلتا ہے، مصر اور عراق نے خریدا ہے۔

2011 میں امریکی ڈرون حملوں کی تعداد میں کمی کیسے آنا شروع ہوئی؟

انسداد دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہر پیٹر بیرگِن کی ’ڈرون وارز’ کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ریکارڈ 122 حملوں پر سال 2010 اوباما کی پاکستان میں ڈرون مہم کا انتہائی کشمکش والا دور تھا۔ اس میں مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لان کے گھر پر چھاپہ مار کارروائی اور نومبر 2011 میں نیٹو فضائی حملہ بھی شامل ہو گیا جس میں 24 پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔

ان واقعات نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو بُری طرح متاثر کیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کو بلوچستان میں قائم شمسی فوجی اڈہ (ائیر بیس) خالی کرنا پڑا جہاں سے مبینہ طور پر ڈرون اڑائے جاتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب امریکی محکمہ خارجہ کے اندر سے اوباما انتظامیہ سے کہا جا رہا تھا کہ ڈرون حملوں کی تعداد میں کمی لائی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ پیٹر بیرگِن کا تبصرہ ہے کہ ’اسی اثنا میں اس وقت کے پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر ڈرون حملوں میں اہداف کا تعین دانائی و عقل مندی سے کرنے اور پاکستانیوں سے مشاورت بڑھانے پر زور دے رہے تھے۔’

امریکی محکہ خارجہ کے دباؤ میں کچھ ہم آہنگی، کانگریس کی زیادہ نگرانی، پاکستان میں سی آئی اے کے ڈرون اڈے کی بندش (اس کے ساتھ غالباً قبائلی علاقوں میں اہداف کی تعداد میں کمی) اور ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستان کی حساسیت پر توجہ سے 2011 میں ان حملوں میں تیزی سے کمی آئی۔ 2010 میں ریکارڈ تعداد میں حملوں کے مقابلے میں 40 فیصد کمی آئی’۔

پاکستانی حکام نے ڈرون حملوں کے مؤثر ہونے کا اعتراف کیا؟

پیٹر بیرگِن نے لکھا کہ وسط 2010 میں واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ پس پردہ بات چیت میں پاکستانی سکیورٹی حکام نے اعتراف کیا کہ بہتر ٹیکنالوجی، زمین پر زیادہ گہرا اطلاعات کا نظام اور امریکہ و پاکستان کے انٹیلیجنس حکام میں زیادہ بہتر ربط و تعلق، ان سب نے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی لانے میں حصہ ڈالا۔

مارچ 2011 میں جنوبی وزیرستان میں پاکستان آرمی ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل غیور محمود نے رپورٹرز کو بتایا کہ ’امریکی پریڈیٹر کے حملوں اور ان میں ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں فرضی کہانیاں اور افواہیں بہت ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں میں مارے جانے والے بہت سارے سخت جنگجو عناصر تھے، جن میں بڑی تعداد غیر ملکیوں کی تھی۔‘

جنرل نے یہاں تک کہا کہ جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں ایک ہزار عسکریت پسند یا جنگجو ہلاک ہوئے۔ کئی اور مواقع پر بھی پاکستانی فوجی اور سویلین حکام نے امریکی ڈرون مہم کی تعریف کی، جن میں امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کا مارا جانا شامل ہے جو پاکستانی طالبان کے چھپ کر رہنے والے کمانڈر تھے۔

ڈرون کے موثر ہونے بارے میں واشنگٹن میں ہونے والی بحث

پیٹر بیرگِن کی ’ڈرون وارز’ میں صورتحال سے متعلق شائع ہونے والے تجزیہ کے مطابق واشنگٹن میں بحث دو نکات کے گرد گھومتی رہی۔

الف) ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستانی قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن یا کارروائیاں رک گئیں۔ ’ڈرون نے القاعدہ اور اس سے منسلک گروہوں کو کس طرح نقصان پہنچایا، یہ بتانے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ جانچا اور تجزیہ کیاجائے کہ عسکریت پسند گروہ کیا کہہ رہے ہیں۔

اس کے گھر سے مئی 2011 میں ملنے والے اکتوبر 2010 کے ایک مراسلے کے مطابق اسامہ بن لادن نے بذات خود اپنے لوگوں کو نصیحت کی تھی کہ پاکستانی قبائلی علاقے چھوڑ دیں (جو سب سے زیادہ ڈرون حملوں کا مرکز بنے ہوئے تھے) اور افغانستان کے دور افتادہ علاقوں میں چلے جائیں۔ 2009 میں حقانی نیٹ ورک کی مہینوں تک قید میں رہنے والے نیویارک ٹائمز کے سابق رپورٹر ڈیوڈ رہوڈ نے لکھا ہے کہ اس کو پکڑنے والے ڈرونز کو جنوبی وزیرستان میں ’دہشت ناک موجودگی’ قرار دیتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ اہم طالبان کمانڈرز نے باہر درختوں کے نیچے سونا شروع کر دیا تھا تاکہ وہ نشانہ نہ بنیں جبکہ مشتبہ ’جاسوسوں’ کو اس الزام پر مارنا شروع کردیا کہ وہ امریکہ کو اطلاعات فراہم کر رہے ہیں، اس سے یہ امر سامنے آتا ہے کہ انھیں اپنے اندر سے بغاوت کا ڈر تھا۔

جون 2012 میں ایک اعلیٰ ‘ٹی ٹی پی’ (تحریک طالبان پاکستان) کے کمانڈر نے جنوبی وزیرستان میں اس ڈر سے پولیو کے خاتمے کی مہم رکوا دی تھی کہ شعبہ صحت کے لوگ اصل میں امریکی جاسوس ہیں جو امریکی سی آئی اے ڈرون پروگرام میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

ب) دوسرا نکتہ امریکی معاشرے میں یہ زیربحث تھا کہ یہ حملے اس سے زیادہ دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں جتنے مارے جا رہے ہیں: پیٹر بیرگِن کی رپورٹ کے مطابق ’2 جون 2010 کو پاکستانی نژاد امریکی فیصل شہزاد نے مین ہیٹن فیڈرل کورٹ کے جج کو بتایا کہ اس نے افغانستان اور عراق میں امریکی قبضے اور دنیا بھر میں ڈرون کے استعمال کے بدلے کے طور پر ٹائم سکوائر کے پرہجوم چوراہے پر بم رکھا’۔

جب جج نے فیصل شہزاد سے پوچھا کہ وہ خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے میں کیسے آسودگی حاصل کر سکتا ہے تو اس کا جواب تھا: ‘افغانستان اور عراق میں جب ڈرون حملہ ہوتا ہے تو وہ بچوں کو نہیں دیکھتا، وہ کسی کو نہیں دیکھتا۔ وہ خواتین، بچوں، سب کو ہی مارتا ہے۔ یہ جنگ ہے اور اس جنگ میں وہ لوگوں کا قتل کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔’ امریکی عدالتوں میں فیصل شہزاد کے اعترافات کو امریکی میڈیا میں بھرپور طورپر پیش کیا گیا۔

اس کی گرفتاری کے بعد جاری ہونے والی ویڈیو میں شہزاد نے انکشاف کیا کہ نیویارک شہر پر اس کے حملے کے مقاصد میں سے ایک پاکستانی طالبان کے لیڈر بیت اللہ محسود کی موت کا بدلہ لینا بھی تھا جو اگست 2009 میں ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ امریکی میڈیا میں جب اس کا بیان نشر ہوا تو اوبامہ انتظامیہ نے کبھی اعتراف نہ کیا کہ یہ ڈرون حملوں کے خلاف بغاوت ہے۔ جو قیاس کیا جاتا ہے کہ فیصل شہزاد نے پاکستان میں عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ تربیت لے رہا تھا، جنھوں نے اسے اس حملے پر اکسایا۔

’ٹائمز سکوائر حملہ افغانستان، پاکستان اور دیگر کہیں اور ڈرون حملوں کے استعمال کا ردعمل ہے، یہ کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ٹائمز سکوائر کا ناکام بم حملہ صدر اباما کی انسداد دہشت گردی میں ڈرون کو استعمال کرنے کی اولیت دینے سے متعلق امریکی پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے پہلا دھچکا تھا۔‘

کیا ڈرونز جنگجوؤں کے خلاف واقعی مؤثر ترین ہتھیار ثابت ہوئے؟

امریکی معاشرے میں ڈرون کے استعمال کے حق میں بنیادی دلیل یہ ہے کہ عام شہریوں کا جانی نقصان کیے بغیر دشوار گزار علاقوں میں دہشت گردوں کو ختم کرنے کا یہ ایک انتہائی موثر ذریعہ ہے۔ واشنگٹن میں انسداد دہشت گردی پالیسی میں شامل تمام بڑے حکومتی اداروں کے سربراہان کا قریب ترین اتفاق اسی دلیل پر ہے۔

سابق سیکریٹری لیون پنیٹا دلیل دیتے ہیں کہ ڈرون حیرت انگیز حد تک ٹھیک ناپ تول کے ساتھ نشانہ لگاتے ہیں کہ ہدف سے ہٹ کر نقصان (کولیٹرل ڈیمیج) نہ ہو اور یہ کہ ‘القاعدہ کی قیادت کو نابود کرنے کی کوششوں کے لحاظ سے فی الوقت یہی ایک طریقہ ہے’۔

اسی طرح سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن نے کہا کہ پاکستان کے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کی طرح کے خطے ڈرون حملوں کی وجہ سے ‘القاعدہ اور اس سے منسلک گروہوں کے لیے نہ تو محفوظ رہے ہیں نہ ہی جنت۔‘

انسداد دہشت گردی کے برطانوی ماہر مائیکل جے بوئیلے نے ‘رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز’ کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان ’دی کاسٹ اینڈ کانسی کوئنس آف ڈرون وار فئیر’ (ڈرون ہتھیار کی قیمت اور نتائج) ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے بارے میں واشنگٹن کے سرکاری مؤقف کی نفی کی گئی ہے۔

جناب بوئیلے کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’ڈرون حملوں کے مؤثر ہونے کے دلائل کو تین ذیلی دعوؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک) کہ ڈرون کم سے کم شہری ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردوں کو مارنے میں موثر ہیں (دو) نام نہاد ‘انتہائی اہم اہداف کو نشانہ’ بنانے میں ڈرون بہت کامیاب ہیں (تین) ڈرون کا استعمال دہشت گرد تنظیموں پر اتنا دباؤ بڑھاتے ہیں کہ اس سے ان کی تنظیمی صلاحیت غیرمؤثر ہو جاتی ہے اور وہ حملہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔‘

اپنی رپورٹ میں بوئیلے پہلا استدلال یہ دیتے ہیں کہ کسی قسم کا قابل اعتبار مواد یا اعدادوشمار دستیاب نہیں اور عام شہریوں کی ہلاکت سے متعلق زیادہ تر تخمینے انٹیلیجینس حکام کے بیانیوں اور ان نیوز رپورٹس پر ہیں جن پر سوالات اٹھتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے حملوں سے متعلق اپنی تمام معلومات کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔

’دوسرا بڑا دعوی اہم ترین اہداف یعنی القاعدہ اور ان سے وابستہ گروہوں کے کلیدی کارروائی کرنے اور سیاسی رہنماؤں کو ختم کرنے کی ڈرون حملوں کی صلاحیت پر مبنی ہے۔ صدر ابامہ کے دور میں جاری اس مہم میں مسلسل یہ کہا گیا کہ وہ القاعدہ کی قیادت کو ختم کرنے کے لیے مہلک قوت استعمال کرنے میں تامل نہیں برتیں گے۔ اس کے باوجود ڈرون حملوں کا اصل ریکارڈ بتاتا ہے کہ ان کی کمان میں افواج نے القاعدہ کے انتہائی مطلوب اہداف کے بجائے ان سے کئی درجے کم کارندوں اور عام شہریوں کو قتل کیا جو دیگر اسلامی تحریکوں سے وابستہ تھے۔‘

’پیٹر بیرگِن نے حساب لگایا ہے کہ 2004 کے بعد سے ڈرون حملوں میں 49 اہم درجے کے ‘عسکریت پسند’ رہنماوں کو ہلاک کیا گیا جو ڈرون حملوں میں ہونے والی اموات کا محض دو فیصد ہے۔ باقی ماندہ 98 فیصد ڈرون حملوں کا نشانہ کم درجے کے کارندے بنے، ان میں سے چند ہی امریکہ اور عام شہریوں کے خلاف کسی براہ راست لڑائی میں شریک تھے۔ ان میں سے بہت سے عناصر کوئی بھی براہ راست خطرات کا موجب نہیں تھا بلکہ اس ضمن میں قیاس آرائیاں زیادہ تھیں۔’

’تیسرا، ڈرون کے پرچارک دلیل دیتے ہیں کہ یہ حملے اتنا دباؤ پیدا کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کی تنظیمی صلاحیت غیرموثر ہو جاتی ہے اور انھیں حملہ کرنے کے قابل نہیں چھورٹیں۔ اس دلیل کی منطق یہ ہے کہ ڈرون حملے اس کے ارکان پر اتنا دباؤ ڈالتے ہیں کہ دہشت گرد گروہ ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے، نئی بھرتی نہیں ہو پاتی اور بالآخر یہ ختم ہو جاتا ہے۔‘

پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں سے متعلق سیاسی تنازع

ڈرون حملوں کی مہم کے آغاز میں سرکاری یا عوامی حلقوں سے کوئی زیادہ معلومات یا مخالفت نہیں دیکھی گئی تھی۔ سنہ 2010 میں امریکی عوام کے رائے عامہ سروے کرنے والی ایجنسی ‘پی ای ڈبلیو’ نے رپورٹ جاری کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی اخبارات اور الیکڑانک نیوز چینلز میں فوجی مہم کی بھرپور اور نمایاں تشہیر کے باوجود دو تہائی پاکستان قبائلی علاقوں میں ڈرون مہم کے بارے میں نہیں جانتے۔

رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’جواب دینے والی اقلیت (35 فیصد) جنھوں نے اس پروگرام کے بارے میں سُن رکھا ہے، قریب ایک تہائی کا کہنا تھا کہ انتہا پسند گروہوں سے پاکستان کو بچانے کے لیے ڈرون حملے ضروری ہیں۔ نسبتاً اکثریت (56 فیصد) کی ایک تہائی تعداد جو ڈرونز سے واقف تھی، کی رائے میں یہ حملے ان کی حکومت کی مرضی کے بغیر ہو رہے ہیں۔ پھر بھی یہ تعداد 33 فیصد ان رائے دہندگان سے بڑی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت نے ان حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرون حملوں کی مخالفت میں پاکستانی عوام کی رائے میں کم اتفاق رائے تھا جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کے خلاف زیادہ تر سیاسی مخالفت اردو میڈیا اور مذہبی دائیں بازو کی طرف سے آئی۔

پاکستان کے اُردو زبان کا میڈیا (نجی ٹیلی ویڑن، ریڈیو اور پرنٹ) ڈرون کے خلاف تقریباً یک زبان ہے جبکہ اشرافیہ کے لیے شائع ہونے والا انگریزی زبان کا میڈیا نسبتا ہمدردانہ رویہ رکھتا ہے۔ اگرچہ پاکستانی انگریزی زبان میں شائع ہونے والے میڈیا میں ڈرون کی کوریج منفی ہوتی ہے لیکن انگریزی زبان میں شائع ہونے والا میڈیا ڈرون کے حامی نکتہ نظر کو بھی جگہ دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں