برلن (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی/روئٹرز) نیٹو کا افغان مشن ختم ہونے کے قریب ہے، جرمنی نے ابتدا میں صرف ان افغانوں کو پناہ دینے کا منصوبہ بنایا تھا جو گزشتہ دو برس سے جرمن فوج کی مدد کررہے تھے۔ تاہم اب سن 2013 سے مدد کرنے والے افغان بھی اس میں شامل کیے جائیں گے۔
جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مدنظر اب ان افغان شہریوں کو بھی جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کا حق دیا جا رہا ہے جنہوں نے اس جنگ زدہ ملک میں تعینات جرمن فوج کی سن 2013 سے مدد کی تھی۔
زیہوفر نے جمعہ 18 جون کو بتایا، ”دو برس کی ڈیڈ لائن ختم کردی گئی ہے۔” وہ برلن کے اس سابقہ موقف کا ذکر کر رہے تھے جس کے مطابق صرف ان افغانوں کو جرمنی میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی جو گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمن فو ج کی مدد کرتے رہے تھے۔ ان میں سے بیشتر افغان مترجم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
جرمن وزیرداخلہ نے یہ اعلان جرمنی کی سولہ علاقائی ریاستوں کے وزرائے داخلہ کی دو روزہ مشترکہ کانفرنس کے اختتام پر کیا۔ جرمن ریاست لوئر سیکسنی کے وزیر داخلہ بورس پسٹوریئس نے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
پسٹوریئس کا کہنا تھا، ”یہ اچھی بات ہے کہ برلن ان سابق افغان مددگاروں کی درخواست پر بھی غور کرے گا جنہوں نے دوبرس سے زیادہ عرصے قبل بھی جرمن فوج اور جرمن پولیس کی مدد کی تھی اور اب انہیں طالبان کی طرف سے انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔”
پسٹوریئس نے برلن کی وفاقی حکومت سے افغانوں کے سفری اخراجات بھی برداشت کرنے کی اپیل کی۔
جرمن وزارت دفاع کے مطابق گزشتہ اپریل تک تقریباً تین سو افغان مترجم کے طور پر اور دیگر کاموں میں 1300 جرمن فوج کی مدد کررہے ہیں۔
جرمن میگزین ڈیر اسپیگل نے جمعہ 18 جون کو دعویٰ کیا ہے کہ 400 افغان مددگاروں، ان کی بیویوں اوربچوں سمیت مزید 1500 افراد اب جرمنی منتقل ہونے کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوجائیں گے۔
زیہوفر نے علاقائی وزرائے داخلہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں کے حوالے سے فیصلے پر نظرثانی نہایت مناسب ہے۔
انہوں نے کہا کہ برلن کا اب تک موقف تھا کہ جن افغانوں نے پانچ یا چھ برس قبل جرمن فوج کی مدد کی تھی انہیں افغانستان میں کسی طرح کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔
سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے پسٹوریئس نے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے کہا، ”جن افغانوں نے ہماری پولیس مشن کے دوران بنڈس ویئر کی مدد کی تھی وہ خاص طور پر طالبان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔”
افغانستان میں دو عشروں تک جرمن فوج کی موجودگی
جرمنی نے سن 2001 میں نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پرالقاعدہ کے حملوں کے چند ماہ بعد ہی امریکا کی قیادت والے آئی ایس اے ایف مشن کے تحت پہلی مرتبہ اپنی فورسیز افغانستان بھیجی تھیں۔ بعد میں نیٹو کی قیادت والے ریزولیوٹ سپورٹ مشن نے اس بین الاقوامی مشن کی جگہ لے لی۔
افغانستان میں دو دہائیوں تک اپنی موجودگی کے دوران جرمنی کے 59 فوجیوں کو اپنی جان گنوانا پڑی۔ ان میں سے 35 پرتشدد کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوئے۔
یکم مئی کو امریکی قیادت والے نیٹو فورسز کے مشن نے افغانستان سے حتمی واپسی کا آغاز کردیا ہے اور ستمبر تک تمام غیر ملکی فوجیوں کا انخلاء مکمل ہوجائے گا۔