اونٹاریو (ڈیلی اردو) کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کی سپریم کورٹ کے لیے پہلے مسلمان جج محمود جمال کو نامزد کردیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس سے قبل محمود جمال اونٹاریو کورٹ آف اپیل کے جج رہے ہیں اور 2019 سے یہ ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔
جج کی ذمے داریاں نبھانے سے قبل وہ کینیڈا کے دو اعلیٰ قانون کے اسکولوں میں پڑھاتے رہے اور کئی دہائیوں تک بحیثیت وکیل بھی امور انجام دیتے رہے اور 35 اپیلوں کے لیے سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوئے۔
وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے محمود جمال کی نامزدگی پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ وہ سپریم کورٹ کا ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے اور اسی وجہ سے میں آج اپنے ملک کی اعلی ترین عدالت میں ان کی تاریخی نامزدگی کا اعلان کر رہا ہوں۔
Justice Mahmud Jamal has had a distinguished career, throughout which he’s remained dedicated to serving others. He’ll be a valuable asset to the Supreme Court – and that’s why, today, I’m announcing his historic nomination to our country’s highest court. https://t.co/GSoW3zCU3b
— Justin Trudeau (@JustinTrudeau) June 17, 2021
محمود جمال کو ابھی بھی ہاؤس آف کامنز جسٹس کمیٹی کی جانب سے جانچے جانے کا عمل باقی ہے لیکن یہ محض ایک رسمی کارروائی ہے۔
وہ 1967 میں نیروبی کے ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور 1981 میں کینیڈا منتقل ہونے سے پہلے ان کی پرورش برطانیہ میں ہوئی تھی۔
کینیڈا ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جس کی 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی میں سے تقریباً ایک چوتھائی کی اقلیتی گروپ کی حیثیت سے شناخت کی گئی ہے۔
لیکن مسلمانوں پر حالیہ حملوں، کمیشن کی جانب سے نسل کشی قرار دیے گئے مقامی لوگوں بدترین سلوک اور سیاہ فام اور دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف پولیس کی بربریت نے کینیڈا میں نسل پرستی کی کارروائیوں کو اجاگر کیا ہے۔
نسل پرستی کے خلاف مارچ کرنے والے امریکی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کرنے والے جسٹن ٹروڈیو نے کہا کہ بہت سے گورے کینیڈا نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارے بہت سے دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ساتھی جس نسل پرستانہ رویے اور امتیازی سلوک کا سامنا کررہے ہیں اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ہمارے تمام اداروں میں منظم نسل پرستی ایک مسئلہ ہے۔
ملازمت کے سوالنامے میں محمود جمال نے کہا کہ ان کی ہائبرڈ مذہبی اور ثقافتی پرورش اور اہلیہ کے ہمراہ کینیڈا میں انہوں نے جن تجربات کا سامنا کیا ہے اس نے مجھ پر تارکین وطن، مذہبی اقلیتوں اور نسل پرست افراد کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ میں اسکول میں ایک عیسائی کی حیثیت سے پروردگار کی عبادت اور چرچ آف انگلینڈ کی اقدار کو محسوس کرتے ہوئے بڑا ہوا، گھر میں بطور مسلمان عربی زبان میں قرآن مجید حفظ کیا اور اب اسماعیلی برادری کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوں۔
مسلمان جج نے انکشاف کیا کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کیا، بچپن اور جوانی میں نام، مذہب یا جلد کی رنگت کی وجہ سے مجھے طعنہ دیے گئے اور ہراساں کیا جاتا رہا۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں 1979 کے انقلاب کے دوران بہائی مذہبی اقلیت پر ہونے والے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ان کی اہلیہ کینیڈا ہجرت کر گئی تھیں۔
محمود جمال نے کہا کہ ہماری شادی کے بعد میں ایک بہائی بن گیا کیونکہ میں انسانیت کے روحانی اتحاد کے عقیدے سے متاثر ہوا اور ہم نے اپنے دو بچوں کو ٹورنٹو کی کثیر النسل بہائی برادری میں پروان چڑھایا۔
جمال نو رکنی عدالت میں سب سے طویل مدت تک فرائض انجام دینے والے جسٹس روزالی ابیلا کی جگہ لیں گے جو یکم جولائی کو ریٹائر ہونے والی ہیں۔