لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں توہین مذہب کے کئی ملزمان کی کامیابی سے وکالت کرنے والے وکیل سیف الملوک کا کہنا ہے کہ ان کی جان کو انتہا پسندوں کی جانب سے خطرہ ہے۔
سیف الملوک نے حال ہی میں توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والے ایک مسیحی جوڑے کی وکالت کر کے انہیں بری کرانے میں کامیابی حاصل کی۔
سیف الملوک نے بی بی سی کو سوشل میڈیا پر ایک پیغام دکھایا جس میں انھیں اس جوڑے کو بری کرانے پر قتل کی دھمکی دی گئی تھی۔
توہین رسالت مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں ایک انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے اور توہین رسالت قانون کے تحت ایک قابل تعزیر جرم ہے جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پھانسی ہے۔
پاکستان میں اب تک توہین رسالت کے جرم میں کسی کو پھانسی کی سزا نہیں ہوئی ہے لیکن متعدد لوگوں کو جن پر توہین رسالت کا الزام لگا انھیں انتہا پسند عناصر نے ہلاک کر دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے توہین رسالت کے قوانین کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور اس قانون کو ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں لاہور ہائی کورٹ نے مسیحی جوڑے شگفتہ کوثر اور ان کے شوہر شفقت ایمینوئل کی سزا ناکافی ثبوت کی بنیاد پر کالعدم قرار دے دی تھی۔
اس جوڑے کو سنہ 2014 میں پیغمبر اسلام کے بارے میں نامناسب ٹیکسٹ میسج کرنے کے الزامات پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ بے گناہ ہیں۔ کوثر کے بھائی نے بی بی سی کو گذشتہ سال بتایا تھا کہ ان کی بہن بہنوئی پڑھے لکھے نہیں اور وہ تحریری پیغامات نہیں بھیج سکتے۔
سیف الملوک ماضی میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی وکالت بھی کر چکے ہیں جنہوں نے توہین رسالت کے الزامات میں آٹھ سال جیل میں کاٹے تھے اور جن کی سزا کے خلاف بین الاقوامی سطح رد عمل سامنے آیا تھا۔
آسیہ بی بی کو آخر کار سپریم کورٹ سے رہائی ملی اور جس کے بعد وہ بیرون ملک چلی گئیں۔
آسیہ بی بی کے حق میں فیصلے پر ایک مذہبی رہنما کے کہنے پر ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
سیف الملوک کا کہنا تھا کہ ’اب جو دھمکیاں انھیں مل رہی ہیں ان کی نوعیت بہت زیادہ سنگین ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے فیصلے کے وقت بھی انہیں اس نوعیت کی دھمکیاں نہیں ملی تھیں۔
ان کے مطابق انتہا پسند عناصر کو لگتا ہے اب صرف وہ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے حکومت کو انھیں مناسب سکیورٹی فراہم نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ‘حکومتِ پاکستان کے کسی کلرک نے بھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا ہے۔’
انھوں نے کہا ان کی طرف سے سرکار کو دی گئی متعدد درخواستوں کا بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ سیف الملوک کو دی جانے والی دھمکیاں کتنی سنگین ہیں لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند سال قبل توہین رسالت کے ملزماں کی پیروی کرنے والے ایک اور وکیل راشد رحمان کو انتہا پسندوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
راشد رحمان اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے جب ان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور ان کے دو نائب زخمی ہو گئے تھے۔
توہین رسالت کے جن ملزمان کو ضلعی یا مقامی عدالتوں سے سزا سنا دی جاتی ان کی اپیلیں اکثر اعلی عدالتوں میں منظور کر لی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے وکلا کا خیال ہے کہ مقامی عدالتوں کے ججوں کو اکثر ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے اور مقدمات میں سقم ہونے کے باوجود انھیں اپنی مرضی کے فیصلے سنانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
ہائی کورٹ میں مسماۃ کوثر جو ایک مسیحی سکول میں کام کرتی ہیں اور ان کے اپاہج شوہر کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں طویل التوا کا شکار رہا۔ سیف الملوک کا خیال تھا کہ ہائی کورٹ کے جج بھی اس خوف کا شکار تھے کہ کہیں ان کو نشانہ نہ بنا دیا جائے۔
یورپی پارلیمان نے اس سال اپریل میں ایک قرار داد کے ذریعے پاکستان سے ان قوانین میں ترمیم کرنے اور مسماۃ کوثر کے مقدمے کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سیف الملوک نے کہا کہ اگر اس مقدمے پر بین الاقوامی سطح پر بات نہ کی جاتی تو یہ بھی غیر معینہ مدت تک التوا کا شکار رہتا۔