تہران (ڈیلی اردو/وی او اے) ایران کے سخت موقف کے حامل منتخب صدر ابراہیم رئیسی نے پیر کے روز کہا کہ وہ تہران کے بیلسٹک میزائل پروگرام یا علاقائِی ملیشیا ‘پراکسی فورسز’ کے لئے اپنی حمایت محدود کرنے کے لئے گفت و شنید نہیں کریں گے۔
تہران میں انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اب جب امریکہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لئے 2015 کے بین الاقوامی معاہدے میں دوبارہ شرکت کی کوششیں کر رہا ہے تو وہ امریکی صدر جو بائِیڈن سے ملاقات نہیں کریں گے۔
رئیسی نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی میں پابندیوں میں نرمی مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکہ واپس آئے اور معاہدے میں اپنے کئے گئے وعدے پورے کرے۔
بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اسے رئیسی کی جانب سے صدر بائیڈن سے ملاقات کرنے سے انکار پر کوئی تشویش نہیں ہے۔
صدر بائیڈن کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایران کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہے اور اس ملک کے کسی بھی سطح کے لیڈر کے ساتھ ملاقات کرنے کامنصوبہ بھی نہیں ہے۔
ساکی نے کہا کہ ایران کے بارے میں صدر بائیڈن کی سوچ بدستور وہی ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہی ملک کے اصل بااختیار حکمران ہیں اور وہی جوہری معاہدے پر نظر ثانی اور توسیع کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔
گزشتہ ہفتے صدارتی انتخاب میں اپنی فتح کے بعد رئیسی سے ان کی پہلی نیوز کانفرنس میں، جب ان سے 1988 میں بڑے پیمانے پر قتل عام میں ان کے ملوث ہونے کے متعلق سوال کیا گیا، جس میں تقریباً پانچ ہزار لوگ مارے گئے تھے تو انہوں نے اس کے جواب میں خود کوانسانی حقوق کے ایک حامی کے طور پر پیش کیا۔