پشاور (ڈیلی اردو/ٹی این این) پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کرکے حکم دیا ہے کہ قبائلی اضلاع اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگوں کے پھٹنے کے حوالے سے تین ہفتوں کے اندر اندر تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے پانچ وکلاء نے درخواست دی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت کو حکم دیا جائے کہ مذکورہ علاقے کو لینڈ مائنز سے پاک کیا جائے اور ان واقعات میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ مالی امداد کی جائے۔
درخواست کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس قیصر رشید کی سربراہی میں جسٹس محمد عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔
درخواست گزار وکیل سجاد احمد محسود نے ٹی این این کو بتایا کہ عدالت نے تین ہفتوں کے اندر اندر وفاقی حکومت سے تفصیلی جواب طلب کیا ہے۔
بارودی سرنگوں سے متاثرہ افراد کے ساتھ مالی معاونت کی جائے
سجاد احمد نے بتایا کہ عدالت میں جمع کی گئی درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع اور بالخصوص جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگیں پھٹنے سے جاں بحق یا اپاہج افراد کے خاندانوں کے ساتھ مالی معاونت کی جائے اور ساتھ ہی علاقے میں شعور اُجاگر کرنے کیلئے سیمنارز اور ورکشاپس کا اہتمام کیاجائے۔
درخواست گزار وکیل نے ٹی این این کو لینڈ مائنز پھٹنے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بتایا کہ اُنکی معلومات کے مطابق گزشتہ 13 سالوں میں 178 واقعات میں 8 سو افراد ہاتھ سے جان دھو بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان واقعات میں 250 بچے اپاہج بن چکے ہیں، 77 افراد کی بینائی چلی گئی ہے جبکہ 4000 کے قریب جانور مرچکے ہیں۔
لینڈ مائنز سے متاثرہ اپاہج بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم
سجاد احمد نے بتایا ” میرے بچے تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں کیونکہ میرا علاقہ پہاڑی ہے اور تعلیمی ادارے پہاڑوں کے اوپر ہیں لینڈ مائنز سے متاثرہ اپاہج بچے پہاڑوں پر نہیں چڑھ سکتے ہیں”۔
انکے مطابق ” جب ہم اپنے علاقوں کو واپسی کر رہے تھے تو اُس وقت بتایا گیا کہ علاقہ کلیئر ہے، لیکن گزشتہ تین سالوں سے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جب یہاں پر شادی کی تقریب ہو یا عید تو کوئی نہ کوئی بچہ شکار ہوجاتا ہے تو میری خوشی کا موقع غم میں تبدیل ہوجاتا ہے”۔
سجاد احمد نے بتایا کہ حکومت جنوبی وزیرستان میں لینڈ مائنز کے شکار متاثرین کے ساتھ دیگر علاقوں کے متاثرین کی طرح یکساں سلوک کیا جائے۔
دھماکوں میں بچ جانے والے بچوں کا علاج کیا جائے
انہوں نے کہا “جس طرح پنجاب اور بلوچستان میں ناگہانی آفات سے متاثرہ خاندانوں کو سرکاری معاوضے دیئے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح میرے علاقے کے لوگوں کو بھی معاوضہ دیا جائے اور بچ جانے والے بچوں، بہنوں اور نوجوانوں کا علاج کیا جائے”۔
رپورٹس کے مطابق رواں سال کے 28 مئی کو لینڈ مائنز پھٹ گئے تھے جن میں مجموعی طور پر 15 بچے اور 3 سیکورٹی فورسز کے اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔
سجاد احمد محسود نے بتایا “یہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں، اس میں آرمی کے نوجوان جو میری تحفظ کرتے ہیں، وہ بھی میرے ساتھ متاثر ہوتے ہیں”۔
درخواست گزار وکیل کہتے ہیں کہ اب تک کسی بھی واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے، کہتے ہیں کہ پولیس متاثرہ خاندانوں کا مقدمہ درج کرتے ہیں نہ ہسپتال عملہ مریض کی رجسٹریشن کرتے ہیں۔
درخواست میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا، ڈائریکٹر جنرل نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی، آئی جی ایف سی، صوبائی پولیس چیف، ساتوں قبائلی اضلاع کے ڈی پی اوز اور جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر کو فریق بنا دیا گیا ہے۔