واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی) لاس اینجلس میں امریکا کی ایک وفاقی عدالت کی جج کے مطابق بھارت کو 2008ء کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے میں مطلوب پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور رانا ابھی امریکی جیل میں ہی رہیں گے۔ رانا تہور کی بھارت حوالگی زیر غور ہے۔
لاس اینجلس سے جمعہ پچیس جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق تہور رانا امریکی شہر شکاگو سے تعلق رکھنے والے ایک سابق بزنس مین ہیں، جو بھارت کو تقریباﹰ 13 برس قبل ممبئی میں بیک وقت کیے جانے والے ان دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے میں مطلوب ہیں، جن میں 160 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
بھارتی حکام نے یہ درخواست کر رکھی ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے کینیڈین شہری تہور رانا کو امریکا سے ملک بدر کر کے بھارت کے حوالے کر دیا جائے۔ اس بارے میں لیکن امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں ایک فیڈرل کورٹ کی خاتون جج نے اب حکم دیا ہے کہ جب تک رانا کی ممکنہ طور پر بھارت حوالگی کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، وہ امریکا کی ایک جیل میں ہی رہیں گے۔
ممبئی حملے بھارت کا نائن الیون
بھارتی حکام 2008ء میں ملک کے تجارتی دارالحکومت ممبئی میں بیک وقت کیے جانے اور ڈیڑھ سو سے زائد افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے دہشت گردانہ حملوں کو ان کی شدت اور ہلاکت خیزی کی وجہ سے امریکا پر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کی نسبت سے ‘بھارت کا نائن الیون‘ قرار دیتے ہیں۔
انہی حملوں کے سلسلے میں بھارت نے پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور رانا کے وارنٹ گرفتاری اگست 2018ء میں جاری کیے تھے۔ رانا کے ملک بدر کر کے بھارت کے حوالے کیے جانے سے متعلق لاس اینجلس کی فیڈرل کورٹ کی مجسٹریٹ جج جیکولین چُول جیان نے جمعرات چوبیس جون کے روز حکم دیا کہ تہور رانا کے خلاف مقدمے میں استغاثہ اور دفاع کے وکلاء کو عدالت کو اضافی دستاویزات مہیا کرنا چاہییں۔ اس لیے 15 جولائی تک تہور رانا امریکا میں وفاقی تحویل ہی میں رہیں گے۔
تہور رانا پر بھارتی الزام
بھارتی حکام کی طرف سے تہور رانا پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن کے دوست ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ساتھ مل کر پاکستانی دہشت گرد گروپ لشکر طیبہ کی مدد کی تھی، جس نے اپنے مسلح عسکریت پسندوں کے ذریعے ممبئی میں دہشت گردانہ حملے کرائے تھے۔ ان حملوں میں 166 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے جبکہ مادی نقصانات کی مالیت کا تخمینہ 1.5 بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔
ممبئی میں پراسیکیوٹرز کے مطابق ہیڈلی اور رانا دونوں پاکستان میں ایک فوجی ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہے ہیں اور تہور رانا کی شکاگو میں تارکین وطن کی قانونی مشاورت کرنے والی فرم اور ممبئی میں قائم کیے گئے ایک دفتر کو مبینہ طور پر 2006ء اور 2008ء کے درمیان دہشت گردانہ سرگرمیوں کی تیاریوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
وکلاء صفائی کا موقف
عدالت میں رانا کا دفاع کرنے والے وکلاء کے مطابق تہور رانا ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے دہشت گردانہ منصوبے سے آگاہ نہیں تھے اور انہوں نے صرف بچپن کے ایک دوست کے طور پر ممبئی میں ایک کاروباری دفتر قائم کرنے میں ہیڈلی کی مدد کی تھی۔
ساتھ ہی ان وکلاء کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہیڈلی مسلسل جھوٹ بولنے کا عادی ہے اور اس نے کئی مجرمانہ واقعات میں امریکی حکومت کو بھی دھوکا دیا۔ اس لیے ہیڈلی کا بیان عدالت کے لیے قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ ان قانونی مشیروں کے مطابق ہیڈلی نے رانا کو بتائے بغیر ان کے ساتھ دیرینہ مراسم کو اپنے دہشت گردانہ منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا تھا۔
رانا کو سزائے قید کیوں سنائی گئی؟
تہور رانا کے وکلاء کے مطابق رانا کو ممبئی حملوں میں مدد کے الزامات سے متعلق امریکا میں مکمل کی گئی عدالتی کارروائی میں بری کیا جا چکا ہے۔ اس لیے انہیں انہی حملوں سے متعلق الزامات کے تحت امریکا بدر کر کے بھارت کے حوالے کرنا قانوناﹰ غلط ہو گا۔
تہور رانا کو 2011ء میں الینوئے میں امریکا کی ایک وفاقی عدالت نے 14 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ اس کا سبب ان کی طرف سے ڈنمارک کے ایک اخبار پر اس مسلح حملے کی تیاری میں کی جانے والی مدد بنی تھی، جو ناکام رہا تھا۔
ڈنمارک کے اس اخبار پر حملے کا منصوبہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ اس جریدے نے 2005ء میں پیغمبر اسلام کے وہ خاکے شائع کیے تھے، جن کی اشاعت پر کئی مسلم اکثریتی ممالک میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔