لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) پنجاب کے ضلع سرگودھا کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے توہینِ مذہب کے الزام پر بینک کے مینیجر کو قتل کرنے والے ملزم کو سزائے موت سنا دی ہے۔
بینک مینیجر کو قتل کرنے والے سیکیورٹی گارڈ احمد نواز کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دو بار سزائے موت، 12 سال قید اور 11 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
بدھ کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت نے احمد نواز کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل عمد) اور دفعہ 353 (سرکاری ملازم کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ قوت کا استعمال) کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے ارتکاب کا الزام بھی عائد کیا۔
مزید برآں عدالت نے مجرم کو دو سال کی اضافی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ 5 لاکھ اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی کا حکم بھی دیا۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت سرگودھا کے جج خاور رشید نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مجرم کو مزید دو سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔
عدالت نے مذکورہ فیصلہ 30 جون کو سنایا تھا جس کے بعد مجرم احمد نواز کے پاس اعلیٰ عدلیہ میں فیصلے کے خلاف اپیل کا اختیار ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں مجرم احمد نواز کے اہلِ خانہ اور وکلا سے رابطہ کرنا چاہا تو وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔
خیال رہے گزشتہ برس چار نومبر 2020 کو بینک کے سیکیورٹی پر مامور محافظ کے ہاتھوں بینک مینیجر کو قتل کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔
پولیس کے مطابق خوشاب کی تحصیل قائد آباد میں واقع نیشنل بینک کی برانچ کے مینیجر ملک عمران حنیف کو سیکیورٹی گارڈ احمد نواز نے رائفل سے فائرنگ کرکے زخمی کر دیا تھا۔
مینیجر کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔
واقعے کے بعد بینک میں موجود دیگر گارڈز نے احمد نواز کو پکڑ لیا تھا اور پولیس کے حوالے کیا تھا۔
قتل کے واقعہ کے بعد سیکیورٹی گارڈ کا کہنا تھا کہ اس نے ملک عمران حنیف کو توہینِ مذہب پر قتل کیا ہے۔ بینک مینیجر نے مبینہ طور پر توہین آمیز کلمات کا استعمال کیا تھا۔
مقتول بینک مینیجر ملک عمران حنیف کے ورثا نے توہین رسالت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے ذاتی عناد قرار دیا تھا۔ قتل کے مقدمے میں مقتول کے چھوٹے بھائی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کے بھائی گذشتہ ایک سال سے اس بینک میں فرائض انجام دے رہے تھے۔
‘میں اکثر ان کو اپنی گاڑی پر بینک چھوڑنے کے لیے جاتا تھا، جس وجہ سے ملزم احمد نواز کو پہلے سے جانتا ہوں۔’
ایف آئی آر میں مقتول کے بھائی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انھوں نے واقعے والے دن اپنے مقتول بھائی کو بینک کے باہر اتارا اور تھوڑی دیر میں فائرنگ کی آواز آئی۔ ‘جس پر میں اترا تو اس وقت دیکھا ملزم احمد نواز مقتول پر براہ راست فائرنگ کر رہا تھا۔’
درج مقدمے میں کہا گیا تھا کہ واقعے کی وجہ عناد ‘سکیورٹی گارڈ کی جانب سے ڈیوٹی پر تاخیر سے آنے پر مقتول کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ تھی’۔
فیصلے کے بعد محمد عمران حنیف کے چھوٹے بھائی کا کہنا تھا کہ انھوں نے انتہائی مشکل حالات میں یہ مقدمہ لڑا ہے۔
’ہر وقت یہ خوف سوار رہتا تھا کہ جو الزام بھائی پر لگایا گیا تھا اس کے نتیجے میں ہم لوگوں کو کوئی نقصاں نہ پہنچ جائے۔ مگر اس اہم وقت میں پولیس، انتظامیہ اور علما کی جانب سے ایک پچاس رکنی کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے اپنی پوری تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں مجرم ہمارے بھائی پر توہین رسالت کا کوئی الزام ثابت نہیں کرسکا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد نہ صرف یہ کہ پولیس نے انصاف کے تقاضے پورے کیے بلکہ عدالت میں بھی اس کی سماعت تیزی سے ہوئی۔ پروسیکوٹر وکلا کی ٹیم نے محنت سے ہمیں انصاف دلایا ہے۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ اس کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ’ہم کچھ مطمئں ہیں مگر بار بار ایک سوال ہمارے ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ مجرم کو سزا تو قتل کی ملی ہے جبکہ اس نے بھائی پر توہین رسالت کا جو جھوٹا الزام عائد کیا تھا اس کی تو کوئی سزا نہیں ملی۔ توہین رسالت کا الزام لگنے سے ہم کس طرح مسائل کا شکار ہوئے اس کا تو کوئی ازالہ نہیں کیا گیا ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور عدالتوں کو اس پر کچھ سوچنا اور عملی طور پر کام کرنا چاہیے۔
’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی اٹھے اور توہین رسالت کا الزام عائد کر دے۔ الزام عائد کرنے والا اگر الزام ثابت نہ کرسکے تو اس کے خلاف بھی توہین رسالت کی دفعات کے تحت کارروائی ہونی چاہیے‘۔
محمد عمران حنیف کے بھائی نے بی بی سی کو بتقیا کہ واقعے کو تقریباً آٹھ نو ماہ گزر چکے ہیں۔ اس واقعے نے ہماری زندگیاں ہی بدل دی ہیں۔ واقعے سے چند دن بعد ہمارے بھائی کی شادی طے تھی۔ ہم بہت چھوٹے تھے جب ہمارے ہمارے والد کی وفات ہوگئی تھی۔ محمد عمران حنیف ہی ہمارے والد تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کے قتل کے وقت میں ماسٹرز کا طالب علم تھے۔ اب تعلیم مکمل کرچکا ہوں۔ بینک نے مجھے بھائی کی جگہ ملازمت دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے کارروائی بھی ہو رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے گھر میں کئی برسوں سے بچے والدہ سے فی سبیل اللہ قران پاک پڑھنے آتے ہیں۔ میری والدہ اب بھی بھائی کو یاد کر کے روتی ہیں۔ وہ بچوں کو قرآن پاک پڑھا رہی ہوتی ہیں تو ساتھ میں اپنے بیٹے کو یاد کرتی ہیں۔ بھائی کے قتل سے پہلے ہمارے گھر میں ہر طرف خوشیاں بکھری ہوئی ہوتی تھیں۔ اب ہر فرد ایک دوسرے سے اپنے آنسو چھپا کر رو رہا ہوتا ہے۔
’میری والدہ اٹھتے بیٹھتے اپنے بیٹے کو یاد کرتی ہیں۔ ہماری زندگیاں تو ہمیشہ کے لیے بدل چکی ہیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ کوئی اور عمران جھوٹے الزام کی زد میں آکر قتل نہ ہو‘۔
واقعہ کا مقدمہ تھانہ قائدآباد خوشاب میں درج کیا گیا تھا جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل تھیں۔
پولیس نے واقعے کے فوری بعد ملزم کو جائے وقوع سے گرفتار کرتے ہوئے اسے قائد آباد تھانے منتقل کرنے کی کوشش کی۔ تو مقامی لوگوں کے ایک ہجوم نے تھانے کو گھیرے میں لے لیا تھا جو بعد ازاں جلوس کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ مقامی لوگوں نے گارڈ کے حق میں نعرے بھی لگائے تھے۔
ضلع خوشاب کے علاقے قائد آباد میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے علما کی سات رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس میں علما کے ساتھ ساتھ پولیس اور دیگر افراد بھی شامل کیے گئے تھے۔
کمیٹی نے اعلامیے میں کہا تھا کہ مقتول عمران حنیف توہینِ مذہب کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔
کمیٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام کسی پر نہ لگا سکے۔
انسانی حقوق کی تنظمیں اِس واقعے سے قبل بھی آواز اٹھاتی رہی ہیں کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے واقعات میں لوگ اپنی ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر ایسے الزامات لگاتے ہیں۔