گلگت سٹی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے شمالی صوبے گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے ڈسڑکٹ اینڈ سشین جج نے توہینِ مذہب کے الزام میں قید ایک خاتون کو عدم شواہد کی بنیاد پر باعزت طور پر بری کر دیا ہے۔
بری ہونے والی خاتون کے خلاف ضلع غذر کے گوہ کچ پولیس تھانے میں 2019 کے اوائل میں توہینِ مذہب قانون کی دفعہ 295-سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ضلع غذر کے ڈسڑکٹ اینڈ سشین جج نے کیس کی سماعت مکمل ہونے پر مختصر فیصلے میں خاتون کو باعزت بری کرنے کا حکم دیا۔
عدالتی فیصلے میں گلگت بلتستان حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر خاتون کے خلاف کوئی اور مقدمہ درج نہیں تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
خاتون کے وکیل اسلام الدین ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتا کہ عدالت میں مقدمے کی سماعت 12 جون کو مکمل ہوئی تھی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے مختصر فیصلے میں لکھا ہے کہ استغاثہ ملزمہ کے خلاف الزامات ثابت نہیں کر سکا جس کی بنیاد پر ملزمہ کو باعزت طور پر بری کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے والے کئی ملزمان عدالتوں سے بری ہوتے رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کی عدالت نے یہ فیصلہ ایسے موقع پر سنایا ہے جب پنجاب کے ضلع خوشاب میں توہینِ مذہب کا الزام لگا کر بینک مینیجر کو قتل کرنے والے ملزم کو مقامی عدالت نے جمعرات کو سزائے موت سنائی تھی۔
یاد رہے کہ دو روز قبل خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں مقامی دکان دار کی رپورٹ پر پولیس نے تندور پر مزدوری کرنے والے ایک افغان نوجوان کے خلاف توہینِ مذہب کے الزام پر مقدمہ درج کیا تھا۔
نوجوان کے والد نے بیٹے پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے جب کہ مدعی دکان دار کا کہنا ہے کہ ملزم توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے۔
اطلاعات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مقامی رہنماؤں پر مشتمل ایک وفد نے اس معاملے پر ضلعی پولیس افسر سے بھی ملاقات کی ہے۔
مذکورہ نوجوان کی گرفتاری کے بعد سیکڑوں مشتعل مظاہرین نے تھانے کا گھیراؤ کر کے ملزم کو اُن کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پولیس کے مطابق کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے ملزم کو محفوظ مقام پر منتقل کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے۔