اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل منظور احمد نے اپنی برطرفی کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کی راولپنڈی بینچ سے رجوع کیا تھا۔ لیکن عدالت نے ان کی پٹیشن کو مسترد کردیا ہے۔
جنرل منظور کا دعویٰ تھا کہ انہیں ان کے عہدے سے غیر قانونی طور پر ہٹایا گیا ہے اور یہ کہ برطرفی کے اس حکم کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ تاہم عدالت نے ان کی اس مدعے کو مسترد کردیا ہے۔ جنرل منظور نے پٹیشن لاہور ہائیکورٹ کی راولپنڈی بینچ میں پٹیشن داخل کی تھی، جس کی سماعت جمعرات یکم جولائی کو جسٹس عاصم حفیظ نے کی۔
فیصلے میں جسٹس عاصم حفیظ نے آئین کے آرٹیکل 199 کی شق نمبر تین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”مسلح افواج کے ملازم کی ملازمت کی شرائط اور ضوابط کے حوالے سے حکم جاری نہیں کیا جائے گا۔‘‘
میجر جنرل منظور احمد نے اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور ان کو بتایا گیا تھا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ سے رجوع کریں، جو متعلقہ فورم ہے۔
جنرل منظور کی طرف سے پٹیشن معروف قانون دان عابد ساقی نے پیش کی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مجھے بھی میڈیا کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ ان کی پٹیشن مسترد ہوگئی ہے۔ میں نے فیصلے کی تصدیق شدہ کاپی کے لیے درخواست دی ہے اور اس کاپی کا میں انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ کی ڈویژن بینچ مسترد کردے گی: ”کیونکہ یہ فیصلہ مکمل طور پر غیر قانونی ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔‘‘
پٹیشن کے مندرجات
اپنی پٹیشن میں جنرل منظور نے لکھا ہے کہ انہوں نے نومبر 1985ء میں پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کیا اور مختلف عہدوں پر ترقی کرتے ہوئے میجر جنرل کے عہدے پر پہنچے جو گریڈ 21 کا ہوتا ہے۔ پٹیشن میں عدالت کو بتایا گیا کہ انہوں نے 35 سال آرمی میں خدمات انجام دی ہیں اور یہ کہ انہوں نے چھ مہینے تک قائم مقام انسپکٹر جنرل آف آرمز کے عہدے پر بھی کام کیا، جو لیفٹینیٹ جنرل کے عہدے کے افسر کو دیا جاتا ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ جنرل منظور کو زبانی طور پر ملٹری حکام نے بتایا کہ وہ 15 جولائی 2020ء کو ریٹائر ہو جائیں گے، جو درخواست گزار کے مطابق، سراسر قانون کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست گزار نے اس زبانی حکم کو ماننے سے انکار کیا اور آرمی چیف کے سامنے پیش ہونے کی اجازت مانگی اور ان کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا۔
جنرل منظور کا دعویٰ ہے کہ انہیں آرمی چیف سے ملنے کی اجازت دی گئی جس میں انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا اور یہ بھی بتایا کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی لیکن متعلقہ حکام نے اس مہم کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔
پٹیشنر کا دعویٰ ہے کہ آرمی چیف نے ان کی بات سے اتفاق کیا لیکن آرمی چیف نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے احکامات کو واپس لینے سے معذرت کی۔ جنرل منظور کو بتایا گیا کہ آرمی آفیسر کو ادارے کی ضرورت کے مطابق کسی وقت بھی ریٹائر کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ اس طرح کی پریکٹس کئی مغربی ممالک میں عام ہے۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے ریٹائرمنٹ کے احکامات کومان لیں۔
جنرل منظور نے پٹیشن میں لکھا کہ 29 جون 2020 کو انہیں ریٹائرمنٹ کے احکامات موصول ہوئے جو ملٹری سیکرٹری کی طرف سے جاری کیے گئے تھے اور اس پہ جاری کی جانے کی تاریخ چوبیس جون 2020 درج تھی۔ اس میں تحریر تھا کہ وفاقی حکومت نے ان کے ریٹائرمنٹ کی منظوری دے دی ہے، جو مدت ملازمت ختم ہونے پر ایک عام عمل ہے۔
جنرل منظور نے پٹیشن میں لکھا کیوں کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا، لہٰذا انہوں نے فوج کے سپریم کمانڈر صدر مملکت عارف علوی کے نام ایک پٹیشن بھیجی، جو ملٹری سیکرٹری کے آفس کو 13 جولائی 2020ء کو موصول ہوئی۔ جنرل منظور کا دعویٰ ہے کہ پٹیشن کو صدر مملکت کو بھیجنے کے بجائے ایجوٹنٹ جنرل نے درخواست گزار کو اپنے آفس میں بلایا اور ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس پٹیشن سے دستبردار ہو جائیں اور یہ کہ جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں کورٹ مارشل کی دھمکی دی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ انہیں نوکری سے برطرف کر دیا جائے گا۔ اس رویے کے خلاف درخواست گزار نے آرمی چیف سے شکایت کی۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے خلاف دی جانے والی درخواست کو جان بوجھ کے روک کے رکھا گیا تاکہ برطرفی کے غیرقانونی اور بد نیتی پر مبنی احکامات کو جاری کیا جا سکے۔
جنرل منظور نے پٹیشن میں مزید لکھا کہ چھ مہینے کی تاخیر کے بعد آخر کار اس سال نو مارچ کو انہیں برطرفی کے احکامات دیے گئے۔ انہیں اس حوالے سے کوئی چارج شیٹ نہیں دی گئی اور صرف برطرفی کا سرٹیفکٹ تھما دیا گیا۔ درخواست گزار نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اس برطرفی کے حکم نامے کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ نہ تو درخواست گزار کسی سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہے اور نہ اس نے کوئی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ ہی سرکاری راز افشا کیے ہیں لیکن عدالت نے ان کی اس اپیل کو مسترد کردیا ہے۔