اسلام آباد (ڈیلی اردو) سپریم کورٹ نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی۔
جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا دو رکنی بینچ 12 جولائی کو درخواست کی سماعت کرے گا۔
واضح رہے کہ ٹی ایل پی کے سربراہ خادم حسین رضوی کے صاحبزادے سعد رضوی کو 12 اپریل کو ان الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے اکسایا تھا کیونکہ ان کے بقول فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے اپنے وعدے سے حکومت پیچھے ہٹ چکی تھی۔
سعد حسین رضوی کے چچا امیر حسین کی جانب سے دائر درخواست میں انہوں نے موقف اپنایا کہ سعد رضوی خلاف کوئی مواد ریکارڈ پر موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپریل میں ٹی ایل پی کے احتجاج کے دوران پولیس کے ہاتھوں 26 لوگ مارے گئے اور 450 ورکرز شدید زخمی ہوئے تھے۔
درخواست میں کہا گیا کہ حکام نے تمام کارروائی ’ایجنسیوں کی نام نہاد رپورٹس‘ کی بنیاد پر کی ہے اور حکومت نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق 16 نومبر 2020 کو کسی معاہدے کی تفصیلات عدالت کے سامنے نہیں رکھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے حقیقت کو چھپاتے ہوئے عدالت کو گمراہ کیا‘۔
درخواست میں پنجاب حکومت، ڈپٹی کمشنر لاہور، لاہور کے پولیس چیف، سپرنٹنڈنٹ کوٹ لکھپت جیل اور ایس ایچ او نواں کوٹ تھانے کو فریق بنایا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کا رہائی کا حکم
8 جولائی کو لاہور ہائیکورٹ کے ایک نظر ثانی بورڈ نے سعد حسین رضوی کی نظربندی سے متعلق ایک کیس میں اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر وہ کسی اور کیس میں بھی مطلوب نہیں تو انہیں ’فوری طور پر رہا کردیا جائے‘۔
اپنے تفصیلی فیصلے میں جسٹس ملک شہزاد کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی نظر ثانی بورڈ نے کہا کہ حکومتی وکیل نے استدلال کیا کہ سعد رجوی کو ضلعی انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر امن و امان کی خراب صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔
سرکاری وکیل کے حوالے سے فیصلے میں کہا گیا کہ امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس برانچ کی ہدایت پر سعد رضوی کو نظر بند کیا گیا اور جس دن ان کو حراست میں لیا گیا، اسے پہلے نہ کوئی پولیس اہلکار شہید اور نہ ہی زخمی ہوا تھا۔
عدالت کے نظر ثانی بورڈ نے کہا کہ سعد رضوی حراست کے دوران اپنے کارکنوں سے رابطے میں نہیں تھے جبکہ ان کو حراست میں لینے سے قبل حالات بھی خراب نہیں تھے۔
فیصلے کے مطابق حکومت پنجاب نے کیس کے حوالے سے حقائق چھپائے کیونکہ پولیس اہلکاروں کے جاں بحق یا زخمی ہونے کی بات کی گئی لیکن ان دنوں میں ٹی ایل پی کے کارکنوں یا جاں بحق شہریوں کی تعداد کا حوالہ نہیں دیا گیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت نے حالات خراب ہونے کی ایک طرف کی تصویر پیش کی ہے، جس سے حکومت کی بدنیتی عیاں ہے۔
عدالت نے کہا کہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی دھرنے دیے لیکن ان پابندی نہیں لگی اور نہ ہی ان کے سربراہان کو نظر بند کیا گیا۔
بورڈ نے مزید کہا کہ حافظ سعد رضوی دو ماہ 20 دن سے نظر بند ہیں اور ان کے خلاف 9 مقدمات درج کیے گئے ہیں، مقدمات میں گرفتاری نہ ڈالنا پولیس کی بدنیتی کو ثابت کرتا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں لاہور ہائی کورٹ کے جائزہ بورڈ نے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے کالعدم ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کی نظربندی میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی، جس کے بعد ان کی رہائی کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔
سعد حسین رضوی کی گرفتاری
سعد حسین رضوی کو 12 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسایا تھا کیونکہ ان کے بقول حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اس سے قبل فرانس میں حضور نبی اکرمﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد تحریک لبیک پاکستان حکومت پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی کیونکہ فرانسیسی صدر کی طرف سے ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی حمایت کی گئی تھی۔
گزشتہ سال نومبر میں ٹی ایل پی اور حکومت کے مابین طے پانے والے معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپریل میں قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا تھا تاکہ اس معاملے کو تین ماہ میں طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی رائے لی جا سکے۔
16 فروری کی ڈیڈ لائن قریب آتے دیکھ کر حکومت نے معاہدے پر عمل درآمد پر معذوری ظاہر کرتے ہوئے مزید وقت طلب کیا تھا، اس کے بعد ٹی ایل پی نے اپنا احتجاج ڈھائی ماہ 20 اپریل تک مؤخر کردیا تھا۔
ڈیڈ لائن کے اختتام سے ایک ہفتہ قبل سعد نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کے کارکنوں سے کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو وہ لانگ مارچ کے لیے تیار رہیں اور اس پیغام کے بعد حکومت نے 12اپریل کو ٹی ایل پی سربراہ کو گرفتار کر لیا تھا۔
لاہور کے وحدت روڈ پر دوپہر 2 بجے کے قریب پولیس نے سعد رضوی کو ایک جنازے میں شرکت کے بعد واپسی کے دوران گرفتار کیا تھا جس کے نتیجے میں مشتعل مظاہرین کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
اگلے ہی دن پولیس نے ٹی ایل پی سربراہ کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی اور مقدمے کے اندراج کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مظاہرین لاہور میں سڑکوں پر نکل آئے اور متعدد مقامات پر گرینڈ ٹرنک روڈ بلاک کردیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور دھرنے کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کردی تھی اور حکومت نے نقص امن کے خطرے کے پیش نظر سعد رضوی کو حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔