کابل (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے پی/اے ایف پی/روئٹرز) افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس) نے چار افغان صحافیوں کو ‘پروپیگنڈا’ کرنے کے الزامات پر گرفتار کرلیا ہے۔
افغان خفیہ ایجنسی، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے حکام نے منگل کے روز جنوبی قندھار کے اہم شہر اسپن بولدک میں داخل ہونے والے چار صحافیوں کو ‘دشمنوں کیلئے پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔
بازداشت چهار خبرنگار در قندهار به اتهام تبلیغ برای طالبان #Afghanistan #ArianaNews https://t.co/olB9PmKZWz pic.twitter.com/mX4xhaCu6A
— Ariana News (@ArianaNews_) July 27, 2021
اسپن بولدک میں اس وقت افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان جنگجووں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
صحافیوں کو گرفتار کرنے پر میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں نے افغان حکومت کی سخت تنقید کی ہے۔ افغان وزارت داخلہ نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکام اس امر کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ تمام صحافی محفوظ رہیں۔
وزارت داخلہ کے نائب ترجمان حامد روشن نے کہا کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کیے جانے والے تمام صحافیوں کو علاقے میں جانے سے روکا تھا لیکن انہوں نے ایجنسی کے انتباہ کو نظر انداز کیا۔
چهار خبرنگار از سوی نیروهای امنیت ملی در کندهار بازداشت شدند.
طلوعنیوز pic.twitter.com/lYbQhLJXcm
— Zahra Rahimi (@ZahraSRahimi) July 26, 2021
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کو علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ سکیورٹی فورسز ان کی جانیں بچانا چاہتی تھیں۔
به دنبال بازداشت چهار خبرنگار محلی در ولایت قندهار توسط نیروهای امنیت ملی، وزارت امور داخلهی کشور میگوید که آنان به اتهام «تبلیغ برای دشمن» بازداشت شدهاند.#Afghanistanhttps://t.co/JvGJxnaubx
— اطلاعات روز | Etilaatroz (@Etilaatroz) July 27, 2021
دوسری طرف مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ صحافی پیر کے روز اسپن بولدک سے واپس لوٹ رہے تھے۔ وہ علاقے میں حکومت کے ان دعووں کی جانچ کرنے گئے تھے کہ طالبان نے درجنوں شہریوں کا قتل عام کر دیا ہے۔ طالبان نے ان الزامات کی پہلے ہی تردید کی ہے۔
افغان میڈیا پر نگاہ رکھنے والی تنظیم این اے آئی نے کہا کہ منگل کے بعد سے ان صحافیوں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا ہے۔ تنظیم نے بتایا کہ ان میں سے تین صحافی بسم اللہ وطن دوست، قدرت سلطانی اور محب عبیدی ایک مقامی ریڈیو اسٹیشن ‘ملت زاغ‘ کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ ثناء اللہ صائم چین کی خبر رساں ایجنسی شنہوا کے کیمرہ مین کے طورپر کام کرتے ہیں۔
(1/2) AJSC confirms detention of four journalists in #Kandahar by the Afghan security organizations. AJSC has been investigating the reasons for detention and whether these journalists have committed any violations.
— AJSC (Afghan Journalists Safety Committee) (@ajsc_afg) July 26, 2021
وزارت داخلہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا،”دہشت گردوں کے حق میں اور افغانستان کے قومی مفاد کے خلاف کسی بھی طرح کا پروپیگنڈا جرم ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کو ’پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور سکیورٹی ایجنسیاں اپنی تحقیقات کر رہی ہیں۔
طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر سے جاری ایک بیان میں ‘افغان انتظامیہ‘ کے ذریعہ صحافیوں کی گرفتاری کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا، ”یہ چاروں صحافی صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے، واقعات کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے تھے۔“
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان چاروں صحافیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ ہمیں نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے قندھار میں چار صحافیوں کی گرفتاری پر تشویش ہے۔
Afghanistan: We are concerned about the detention of four journalists in Kandahar by National Security Directorate since yesterday. These journalists were returning from Spin Boldak district after investigating about civilian casualties. We call for their release. https://t.co/bfeMDKMWh4
— Amnesty International South Asia, Regional Office (@amnestysasia) July 27, 2021
این اے آئی نے کہا کہ واشنگٹن کی جانب سے ستمبر تک امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے بعد سے صحافیوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرے گی۔
این اے آئی کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت اسی طرح (گرفتاریاں) کرے گی اور میڈیا پر پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہے تو ہم سب سے بڑی کامیابی سے محروم ہوجائیں گے۔
این اے آئی نے صحافیوں کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور ان کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیاہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں صحافیوں کو انتہائی مشکل حالات میں کام کرنا پڑرہا ہے۔ انہیں اکثر دھمکی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔