دوحہ + بیجنگ (ڈیلی اردو/بی بی سی) قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور موجودہ صورتحال، امن عمل اور افغان چین تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔
قطر میں طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ طالبان وفد ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں گزشتہ روز 2 روزہ دورے پر چین پہنچا ہے۔
2/4 در این سفر ، جلسات جداگانه ای با وزیر امور خارجه چین وانگ یی ، معاون وزیر خارجه و نماینده ویژه چین براى افغانستان برگزار شد.
در جلسات در مورد مسائل سیاسی ، اقتصادی و امنیتی مربوط به دو کشور ، اوضاع کنونی افغانستان و روند صلح تبادل نظر شد.— Dr.M.Naeem (@IeaOffice) July 28, 2021
محمد نعیم کا کہنا تھا کہ طالبان وفد نے افغان سرزمین کسی بھی ملک کی سلامتی کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ چین نے افغان امور میں مداخلت نہ کرنے اور امن کیلئے کوششوں میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
4/4 امارت اسلامی از چین به خاطر همكارى مداوم خود با مردم افغانستان ، به ویژه همكارى مداوم در تلاش برای جلوگیری از کورونا تشکر نمود.
— Dr.M.Naeem (@IeaOffice) July 28, 2021
انہوں نے بتایا کہ طالبان کے وفد نے چینی وزیرخارجہ سے ملاقات کی ہے جس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال اور امن عمل پر تبادلہ خیال ہوا۔
دوسری جانب چین نے بھی افغان طالبان وفد کی چینی وزیر خارجہ سے ملاقات پر بیان جاری کیا ہے۔
When meeting Mullah Baradar, State Councilor&FM Wang Yi hoped the #Afghan #Taliban to prioritize national interests&have peace talks, the peace&reconciliation process achieve substantive results soon and a broad inclusive political framework that fits Afghan conditions be set up. pic.twitter.com/xs24VXZAtG
— Lijian Zhao 赵立坚 (@zlj517) July 28, 2021
ترجمان چینی وزارت خارجہ کے مطابق افغان طالبان وفد نے چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔
Wang said,fighting #ETIM is a shared responsibility of the intl community.The #Afghan #Taliban is hoped to steer clear from & decisively combat ETIM & all terrorist groups.The Afghan Taliban said it never allows any force to use the Afghan territory to do things that harm #China.
— Lijian Zhao 赵立坚 (@zlj517) July 28, 2021
ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان کی اہم فوجی اور سیاسی قوت ہیں اور چین افغانستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کار بند ہے۔ ترجمان کے مطابق افغان عوام کے پاس ملک کو استحکام اور ترقی دینےکا اہم موقع ہے۔
Baradar said #China has been a good&reliable friend and appreciates China’s role in the peace&reconciliation process. The #Afghan #Taliban is sincere in realizing peace and is ready to work with all parties to build a broad inclusive political framework acceptable to all Afghans.
— Lijian Zhao 赵立坚 (@zlj517) July 28, 2021
ادھر امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن انڈیا کا دورہ کر رہے ہیں۔
وہیں پاکستان اور چین کا کہنا ہے کہ وہ مل کر افغانستان میں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے کوشش کریں گے۔ اس ساری صورتحال میں انڈیا کے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں بے چینی محسوس کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ چین اور پاکستان نے افغانستان میں شدت پسند قوتوں کے خلاف ’مشترکہ اقدامات‘ کرنے کا اعلان کیا تاکہ اسے ’دہشت گردی کا گڑھ‘ بننے سے روکا جاسکے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پیر کے روز چین کے دورے پر تھے، جہاں انھوں نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔
Great to be in #China to meet my brother State Councilor and Foreign Minister #WangYi to discuss bilateral strategic, economic and security cooperation, the COVID-19 pandemic, peace and reconciliation in Afghanistan and international and regional issues of mutual interest. pic.twitter.com/8AP1Teai1n
— Shah Mahmood Qureshi (@SMQureshiPTI) July 24, 2021
حال ہی میں، طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ وہ چین کو افغانستان کا دوست سمجھتے ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ تعمیر نو کے کاموں میں سرمایہ کاری کے لیے جلد از جلد چین کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔ طالبان نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اب سنکیانگ سے چینی اویغر علیحدگی پسند جنگجوؤں کو افغانستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکہ، روس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مفاہمت کے لیے مختلف کوششیں جاری ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں افغانستان کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے لیکن کچھ ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں افغانستان کے مسئلے کو اٹھائے جانے کے صرف ایک دن بعد انڈیا آ رہے ہیں۔
توقع ہے کہ امریکہ اور انڈیا کے وزرائے خارجہ کے مابین ہونے والی بات چیت میں بھی افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چین افغانستان میں پاکستان کے ساتھ ‘مشترکہ اقدامات’ کے بارے میں بات کرتا ہے تو پھر انڈیا ان کی فکر کرنے کی کوئی بات ہے یا نہیں؟ کیا چین افغانستان اور طالبان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے؟
عام طور پر ثالثی ان لوگوں کے ذریعے کی جاتی ہے جو تنازع میں ملوث دونوں فریقوں کے برابر دوست ہیں۔
پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا واقعی چین کے افغان حکومت اور طالبان دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔
چین کی حکومت افغانستان اور طالبان کے ساتھ تعلقات
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سکول آف انٹرنیشنل سٹڈی کے پروفیسر سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ ’چین ہمیشہ ہی افغان حکومت اور طالبان دونوں کے ساتھ رابطے میں رہا ہے۔ 1996 میں، جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا، اس کے درمیان کوئی باضابطہ تعلقات نہیں تھے۔ حالانکہ چین طالبان سے رابطے میں تھا ۔اس کی ایک وجہ چین کے صوبہ سنکیانگ میں اویغر اسلامی شدت پسندی کا خوف ہے۔ چینی حکومت کی افغان حکومت سے باضابطہ ملاقاتیں بھی ہیں۔ ایس سی او اجلاس اس کی ایک مثال ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر چین ثالثی کرتا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے لیے اس کردار میں اکٹھا ہونا چین کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان دونوں طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ مل کر وہ ایک طرف طالبان کا مقابلہ بھی کر رہا ہے اور دوسرا طالبان کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات اس سطح کے لیے مددگار ثابت ہوں گے جس پر چین ثالثی کرنے کی کوشش کرے گا۔`
’ایک ثالث کی حیثیت سے ایک اور کام ہے جو صرف چین ہی کرسکتا ہے اور دوسرے ممالک نہیں کر سکتے ہیں، وہ مالی امداد ہے۔ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت افغانستان کو ایک اچھی پیش کش کرسکتا ہے۔‘
در حقیقت چین نے پہلے ہی بی آر آئی منصوبے کے تحت کابل سے پشاور تک ایکسپریس وے بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس سے چین کی تجارت کو فروغ ملے گا اور افغانستان بھی اس سے مستفید ہوگا۔ اس کے لیے چین افغان حکومت سے بات چیت کر رہا تھا ، لیکن معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے۔
اگر مستقبل میں طالبان افغانستان میں کسی بھی شکل میں برسر اقتدار آتے ہیں تو چین ان کی مالی مدد کرسکتا ہے (براہ راست اور بلاواسطہ) دوسروں سے بہتر اور مختلف طریقوں سے۔ طالبان نے ماضی میں کہا ہے کہ وہ جلد از جلد تعمیر نو کے کاموں میں سرمایہ کاری کے بارے میں چین سے بات کریں گے۔
ایسی صورتحال میں چین کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنا افغان حکومت اور طالبان دونوں کے لیے ایک جیت کا سودا ہے۔
چین ‘ثالث’ کے کردار میں
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ امریکہ کی صورتحال کو دیکھنے کے بعد چین کیوں ایسا کردار ادا کرنا چاہے گا؟
شانتی میریٹ ڈی سوزا کوٹیلیا سکول آف پبلک پالیسی میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے افغانستان میں کام کیا ہے اور اس پر پی ایچ ڈی بھی کرچکی ہیں۔ بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے تین اہم وجوہات کا ذکر کیا۔
پہلا: چین نے افغانستان میں ترقیاتی کاموں میں معاشی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھاتے رہیں، جس کے لیے طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ضرورت ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق چین نے افغانستان میں 400 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔
دوسرا: جیش، لشکر اور حقانی نیٹ ورک جیسے طالبان سے وابستہ دہشت گرد گروہوں کی شبیہہ اب تک ’انڈین مخالف‘ رہی ہے۔ چین اگر ضرورت ہو تو انڈیا کے خلاف طالبان کا سٹریٹجک استعمال کر سکتا ہے۔
تیسرا: چین اپنے صوبہ سنکیانگ میں طالبان کی وجہ سے پریشانیوں کا آغاز نہیں چاہتا۔ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان کے عدم استحکام کا اثر چین کی سرحد پر دکھائی دے اور وہاں دہشت گردی پھیلنا شروع ہوجائے۔
پروفیسر شانتی ڈسوزا کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ اور روس کی تقدیر کو دیکھنے کے بعد، چین افغانستان میں استحکام کے لیے ثالثی کرسکتا ہے لیکن وہ فوجی مداخلت نہیں کرنا چاہے گا۔ یہ طالبان اور حکومت کے ساتھ ‘بیک چینل مذاکرات’ میں بڑا کردار ادا کرسکتی ہے۔
چین کے خدشات
چین کے صوبے سنکیانگ کی افغانستان کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر، چین کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ اگر واقعتاً طالبان اقتدار حاصل کرتے ہیں تو، چین کے علاقے سنکیانگ میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کو وہاں سے پناہ اور امداد مل سکتی ہے۔
ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ ایک چھوٹا اسلامی علیحدگی پسند گروپ ہے جو کہا جاتا ہے کہ وہ چین کے مغربی چین کے صوبے سنکیانگ میں سرگرم عمل ہے اور ایک آزاد مشرقی ترکستان کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ سنکیانگ صوبے میں چین کی نسلی اقلیت یعنی اویغر مسلمان ہیں۔
اسی خوف کی وجہ سے چین ہمیشہ ہی طالبان سے رابطے میں رہا ہے۔
روس اور امریکہ دونوں اب ‘ثالث’ کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ 20 سال بعد امریکہ وہاں سے لوٹ گیا ہے جبکہ روس فوجی امداد نہیں دینا چاہتا ہے اور مالی امداد فراہم نہیں کرسکتا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ یہ بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اسے افغان حکومت شک کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کی جھلک افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح کی طرف سے پاکستان کی مبینہ طور پر افغان طالبان کی حمایت والے بیانات ہیں جن کی پاکستان نے تردید اور مذمت کی ہے۔
امر اللہ صالح نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ‘اس (پاکستان) کی فضائیہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر چمن بارڈر کے قریب أفغانستان کی حدود میں اُن طالبان کے خلاف کارروائی کی گئی جنھوں نے سپین بولدک پر قبضہ کیا ہے تو اس کا پاکستان کی جانب سے جواب دیا جائے گا۔’
تاہم پاکستان کی دفتر خارجہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘افغانستان کے بعض حکام دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کے لیے جھوٹ پر مبنی بیانات جاری کر رہے ہیں حالانکہ پاکستان نے کل ہی سپین بولدک پر طالبان کے حملے کے دوران وہاں سے فرار ہو کر پاکستان پہنچنے والے چالیس افسروں اور اہلکاروں کو واپس افغانستان پہنچایا ہے۔’
انڈیا نے کبھی بھی طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار نہیں رکھے۔ تاہم حال ہی میں پس پردہ کچھ لوگوں کی بات چیت کی خبریں ضرور سامنے آئی ہیں۔
انڈیا کا خوف
انڈیا نے افغانستان میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔
انڈین حکومت کے مطابق ، انڈیا کے افغانستان کے تمام 34 صوبوں میں 400 سے زیادہ منصوبے چل رہے ہیں۔ انڈیا نے افغانستان کی پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر کی ہے اور انڈیا نے افغانستان کے ساتھ ایک بڑا ڈیم بھی تعمیر کیا ہے۔
انڈیا کی طرف سے یہ سرمایہ کاری نہ صرف معاشی ہے بلکہ افغان حکومت کے ساتھ اچھے سیاسی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے بھی کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ انڈیا کی تشویش یہ بھی ہے کہ وہاں کی حکومت کو اپنی سرزمین کو انڈیا مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔
پروفیسر شانتی ڈسوزا کا کہنا ہے کہ ’اگر چین کی ثالثی سے استحکام آجائے، محفوظ ماحول پیدا ہو، طالبان اقتدار پر قابض نہ ہوں تو انڈیا کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔‘
لیکن انھوں نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں، افغانستان بھی چین اور انڈیا کے مابین مسابقت کا میدان بن سکتا ہے۔ اگر چین وہاں کسی طرح کے ’بڑے کردار‘ میں جاتا ہے اور پاکستان کے ساتھ ملی بھگت میں انڈیا کی سرمایہ کاری کو کوئی خطرہ ہے۔
پروفیسر شانتی ڈسوزا کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا نے افغانستان میں جو بھی سرمایہ کاری کی ہے، وہ مالی مدد کی شکل میں کی گئی ہے، جبکہ چین نے افغانستان میں ترقیاتی کاموں کے لیے مالی مدد کی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ جب بھی چین مالی مدد کرتا ہے تو وہ اس کا فائدہ بھی دیکھتا ہے۔
چین نے افغانستان میں سکیورٹی کے شعبے سے لے کر تانبے کی کان تک کی سرمایہ کاری کی ہے۔
’ثالث‘ کے کردار میں چین کیلئے چیلنج
ایسی صورتحال میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنا آسان ہوگا؟
اس پر سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ چین اس طرح کا کردار ادا کرے۔ امریکہ پاکستان اور انڈیا سے بھی بات کرے گا۔ ان کے وزیر خارجہ بھی انڈیا کے دورے پر ہیں۔
امریکہ کی طرف سے ہمیشہ انڈیا کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ انڈیا کو اپنی فوج افغانستان بھیجنا چاہیے۔ تاہم ، اس بارے میں انڈیا کی طرف سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں ہوا ہے۔ لیکن اپنے سفارت خانے کے تحفظ کے لیے انڈیا نے پہلے وہاں نیم فوجی دستہ بھیجا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں استحکام لانے میں انڈیا کا بڑا کردار دیکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے، انڈیا نے بھی پس پردہ طالبان سے بات چیت کا آغاز کردیا ہے۔
لیکن پروفیسر شانتی کی رائے پروفیسر سورن سنگھ کی رائے سے تھوڑا مختلف ہے۔ انھیں نہیں لگتا کہ امریکہ افغانستان میں چین کے کردار کے خلاف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ یقینی طور پر چاہے گا کہ چین افغانستان میں ایک بڑا کردار ادا کرے، لیکن فوجی مداخلت کی صورت میں۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکہ اور چین کے مابین طالبان کے حوالے سے سٹریٹجک مقابلہ شروع ہو۔ ایک طرف امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدہ ہے، دوسری طرف امریکہ جانتا ہے کہ چین کے پاکستان سے اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان اور طالبان کے مابین دوستی بھی ہے۔
اس لحاظ سے آنے والے چند ہفتے پورے افغانستان، امریکہ، چین، پاکستان اور انڈیا کے لیے اہم ثابت ہونے والے ہیں۔