افغان طالبان چمن، سپن بولدک بارڈر پر اضافی ٹیکس وصول کرنے لگے

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغان طالبان نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن کے ساتھ جڑے افغانستان کے شہر سپن بولدک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ٹیکس اور ڈیوٹیز کی وصولی کا ٹیرف جاری کر دیا ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق یہ فہرست پاکستانی تاجروں کو موصول ہو گئی ہے جس کے مطابق افغان طالبان تقریباً 376 اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹیز وصول کرنا چاہتے ہیں۔

اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر عمران خان کاکڑ نے کہا کہ دوہرے ٹیکس کی وجہ سے پاکستانی تاجروں کو نقصان ضرور ہوگا لیکن کسی بڑے اور ناقابل تلافی نقصان سے بچنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

جب بی بی سی نے متعلقہ حکام سے اس معاملے پر سرکاری ردعمل لینے کی کوشش کی تو بین الاقوامی تجارت کے امور کی نگرانی کرنے والی وفاقی وزارتِ تجارت کے ترجمان نے اس معاملے کو اپنی وزارت کے اختیار سے باہر قرار دیا۔

پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے بھی اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم ان کے ترجمان کے جانب سے تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔

دوہرے ٹیکس اور ڈیوٹیز کی ادائیگی سے پاکستانی تاجروں کا نقصان

عمران خان کاکڑ نے بتایا کہ اب تاجروں کو سپن بولدک میں طالبان کو ٹیکس اور ڈیوٹیز دینی ہوں گی جبکہ اس سے آگے قندہار میں اشرف غنی حکومت کو بھی ادائیگی کرنی پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ قندھار کسٹم میں اسکوڈا (ASYCUDA) سسٹم کے تحت افغان حکومت کو دوبارہ ڈیوٹی اور ٹیکس دینا ہوگا اور صرف اسی صورت میں پاکستان سے افغانستان میں جانے والا مال قانونی قرار دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ افغان طالبان کی جانب سے عائد کردہ ڈیوٹیز کم ہیں لیکن پاکستانی تاجروں کو نقصان ضرور ہوگا۔ ’پاکستانی تاجر پہلے ایک ٹیکس اور ڈیوٹی دیتے تھے لیکن اب ان کو دو جگہ یہ دینے ہوں گے۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس نقصان کو برداشت کرنے کے سوا پاکستانی تاجروں کے پاس کوئی اورچارہ نہیں کیونکہ اگر ایک تاجر کا 80 لاکھ یا ایک کروڑ روپے کا سامان ہوگا تو اسے ایک بہت بڑے نقصان سے بچنے کے لیے مجبوراً چھوٹا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

‘وہاں حالات غیر یقینی ہیں۔ ہر فرد باالخصوص پاکستان کی تاجر برادری افغانستان میں اچھے وقت کا انتظار کررہا ہے۔’

یہ فہرست پاکستانی تاجروں کو کیسے موصول ہوئی؟
عمران کاکڑ نے بتایا کہ افغان طالبان نے جن اشیا کی فہرست دی ہے وہ 19 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں اندازاً 376 اشیا شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کا پاکستانی تاجروں سے براہ راست سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

‘انھوں نے یہ فہرست ہمیں افغان تاجروں کے ذریعے بھجوائی ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ ان ان اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹیز کی وصولی کریں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان اور پاکستانی تاجروں کا مشترکہ چیمبر آف کامرس ہے اس لیے جو بھی رابطہ ہوتا ہے یا معلومات ہوتی ہیں وہ افغانستان میں کسی بھی فریق کی جانب سے افغان تاجر برادری کے ذریعے پاکستانی تاجروں کو فراہم کی جاتی ہیں۔

پاکستان کو افغان طالبان کی اس فہرست پر کوئی اعتراض تو نہیں؟

اس سوال پرکہ کیا افغان طالبان کی جانب سے ٹیرف کی فہرست پر حکومت پاکستان کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا، تاجر رہنما نے کہا کہ پاکستان حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یہ افغانستان کا اندورنی معاملہ ہے۔

‘واضح بات ہے کہ پاکستانی حکومت مداخلت نہیں کرنا چاہتی ہے کیونکہ افغان حکومت پہلے ہی ٹیکس وصول کر رہی ہے۔’

جوائنٹ پاکستان افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر نے بتایا کہ 1994 میں بھی جب طالبان اس علاقے میں آئے تھے تو انہوں نے اپنا ٹیرف جاری کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ پہلے انھوں نے ٹیکس اور ڈیوٹیز کا جو ٹیرف دیا تھا اس میں اور موجودہ میں کتنا فرق ہے۔

‘ظاہر ہے کہ 1994 اور2021 کے ٹیرف میں لازماً فرق ہوگا۔‘

خیال رہے کہ سپن بولدک میں افغان طالبان کے آنے کے بعد چمن سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان فرینڈشپ گیٹ ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کیا گیا تھا۔ تاہم عید سے پہلے اسے پیدل آمد ورفت کے لیے کھول دیا گیا اور عید کے بعد اسے تجارت کے لیے بھی کھول دیا گیا۔

عمران کا کڑ نے بتایا کہ تجارت کے لیے اسے کھولنے میں سب سے بڑا کردار چمن چیمبر آف کامرس کا تھا۔

‘تاجروں کے روزانہ پاکستانی سویلین اور فوجی حکام سے مذاکرات ہوتے تھے۔ تاجروں کی کوششوں کے نتیجے میں اسے تجارت کے لیے بھی کھول دیا گیا۔‘

باب دوستی کے کھلنے کے بعد طالبان کی جانب سے ٹیکس اور ڈیوٹی کی وصولی ویش منڈی کے علاقے میں شروع کی جائے گی۔

ویش منڈی کی کیا اہمیت ہے؟

ویش منڈی بنیادی طور پر چمن کے ساتھ افغان علاقے سپن بولدک میں ایک سرحدی منڈی ہے جس میں طالبان رواں ماہ کے وسط میں آئے تھے جس کے بعد انھوں نے سپن بولدک کا کنٹرول بھی حاصل کیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ویش منڈی افغانستان کے اہم صوبے اور دوسرے بڑے شہر قندہارکا گیٹ وے ہے۔

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ بلوچستان سے افغانستان کے جنوب مغربی صوبوں اور وسط ایشائی ریاستوں کے درمیان ویش منڈی طورخم کی طرح اہم گزرگاہ ہے۔

ادھر طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹم کے باقاعدہ نظام کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہر اشیا پر الگ ٹیکس کی وصولی نہیں کی جا رہی بلکہ فی حال اشیا پر مجموعی ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔

مثلاً ہر سبزی کا ٹرک جو سپن بولدک سے آگے کسی شہر میں جائے گا اس سے فی ٹرک چالیس ہزار روپے وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ اگر وہ ٹرک ان علاقوں میں خالی ہوتا ہے جس پر طالبان کا کنڑول ہے جیسا کہ سپین بولدک یا باڈر کے قریب واقع ویش منڈی تو سبزی کے فی ٹرک سے سات ہزار روپے بطور ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں۔

اسی طرح دھاتی کباڑ لانے والے پر ٹرک سے چار لاکھ روپے ٹیکس کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔

طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ کیونکہ اس وقت سپین بولد کے قریب واقع ہیڈ کوارٹر پر اب بھی افغان حکومت کا کنڑول موجود ہے اس لیے سپین بولدک سے آگے جانے والے سامان پر افغان حکومت کی جانب سے علیحدہ ٹیکس وصول کیا جاتا۔

پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عمران خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان کا لگایا گیا ٹیکس افغان حکومت کی جانب سے وصول کیے جانے والے ٹیکس سے بہت کم ہے لیکن اس ٹیکس کی وجہ سے تاجروں پر اس لیے بھی اضافی بوجھ بڑھ گیا کیونکہ سپن بولدک سے آگے جانے والے سامان پر انھیں افغان حکومت کو دوبارہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔

عمران خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ کیونکہ اس وقت طالبان کے پاس باقاعدہ ٹیکس وصولی سسٹم موجود نہیں ہے اس لیے نقد ٹیکس کے بدلے طالبان کی جانب سے ایک رسید دی جاتی ہے۔

عمران خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے جاری شدہ 376 اشیا پر مشتمل ٹیکس لسٹ جاری کی گئی ہے وہ حتمی نہیں اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آئیں گی کیونکہ اس وقت بہت سی اشیا پر مقرر کردہ ٹیکس پر طالبان اور تاجروں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔

’طالبان کی جانب سے دھاتی کباڑ لانے والے فی ٹرک پر بارہ لاکھ روپے کا ٹیکس لاگو کیا گیا تھا تاہم جب کباڑ لانے والے تاجروں نے طالبان سے مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں اس ٹیکس کو کم کر کے چار لاکھ روپے کر دیا گیا۔ لیکن ابھی بھی مزاکرات جاری ہیں تاکہ اس ٹیکس کو مزید کم کروایا جا سکے۔‘

عمران خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ گذشتہ ادوار میں بھی طالبان کی جانب سی ٹیکس وصول کیا گیا ہے اور اس وقت بھی مقرر کردہ ٹیکس کی لاگت دوسرے مملک کی نسبت کم تھی۔

’طالبان کے ٹیکس نظام کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ وہ ٹیکس ادائیگی کے بدلے جو رسید دیتے ہیں اسے دیکھا کر آپ اپنا سامان طالبان کے زیر کنڑول کسی بھی علاقے سے نکال سکتے ہیں۔ آپ کو بار بار ٹیکس یا کسی اور قسم کی کوئی رقم ادا نہیں کرنی پڑھتی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں