اسلام آباد (ڈیلی اردو) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے رحیم یار خان میں مندر پر حملہ کرنے والے ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
رحیم یار خان مندر حملہ ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی جس میں آئی جی پنجاب پولیس انعام غنی، چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی پنجاب انعام غنی اور چیف سیکرٹری کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مندر پر حملہ ہوا، انتظامیہ اور پولیس کیا کر رہی تھی۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اے سی اور اے ایس پی موقع پر موجود تھے، انتظامیہ کی ترجیح مندر کے آس پاس 70 ہندو گھروں کا تحفظ تھا۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اگر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کام نہیں کر سکتے تو انہیں عہدے سے فارغ کر دیں۔
آئی جی پنجاب انعام غنی نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک 8 سال کے بچے کی وجہ سے یہ سارا واقعہ ہوا، 8 سال کے بچے کو مذہب کے بارے میں کیا پتا؟ اس واقعے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی، پولیس نے ماسوائے تماشہ دیکھنے کے کچھ نہیں کیا۔
جسٹس قاضی امین نے آئی جی پنجاب پولیس نے استفسار کیا کہ کیا مقدمے میں کوئی گرفتاری کی گئی؟ جس پر انعام غنی نے بتایا کہ مندر حملہ کیس میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی معاملے کا نوٹس لے لیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم اپنا کام جاری رکھیں، ہم کیس کا قانونی پہلو دیکھیں گے۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئی جبکہ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ واقعے کو 3 دن ہو گئے، ایک بندہ پکڑا نہیں گیا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پھر پولیس ملزمان کی ضمانت اور صلح کروائے گی، سرکاری پیسے سے مندر کی تعمیر ہو گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ واقعے پر پولیس کی ندامت دیکھ کر لگتا ہے پولیس میں جوش و ولولہ نہیں ہے، پولیس کے پروفیشنل لوگ ہوتے تو اب تک معاملات حل ہو چکے ہوتے، مندر گرا دیا، سوچیں ہندو برادری کے دل پر کیا گزری ہو گی، سوچیں مسجد گرا دی جاتی تو مسلمانوں کا کیا ردعمل ہوتا؟
سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور مندر کی مرمت اور بحالی کے لیے پیسے ملزمان سے وصول کیے جائیں۔
عدالت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے ملزمان کے خلاف کارروائی کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 13 اگست تک ملتوی کر دی اور حکم دیا کہ پنجاب میں مذہبی ہم آہنگی کے لیے امن کمیٹیاں قائم کی جائیں۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے شرپسندی پر اکسانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا اور کہا کہ دندناتے پھرتے ملزمان ہندو کمیونٹی کے لیے مسائل پیدا کر سکتے، یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔
دوسری جانب رحیم یار خان کے علاقے بھونگ میں مندر میں توڑ پھوڑ اور موٹر وے بلاک کرنے پر 150 سے زائد ملزمان کے خلاف 3 مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔