پشاور (ڈیلی اردو/ٹی این این) آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا ریلیف فنڈز میں خیبر پختونخوا حکومت نے 3 ارب روپے کی بےضابطگی کی ہے جب کہ 88 کروڑ 10 لاکھ روپے کی مشکوک خریداری کی نشان دہی کی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کورونا فنڈ میں 3 ارب کی بے ضابطگیوں کا انکشاف صدر مملکت کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں ہوا ہے۔
آڈیٹرز نے اپنی رپورٹ صدر پاکستان کو گزشتہ ہفتے جمع کروائی ہے۔ آڈیٹرز نے مالی سال 2019-20 میں مختص 8.8 ارب روپے کا آڈٹ کیا جس میں خیبر پختون خوا حکومت کے محکمہ خزانہ کے جاری کردہ 7.8 ارب روپے بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ محکمہ خزانہ کی جانب سے محکمہ صحت، داخلہ اور محکمہ ٹی اے سمیت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پریپ کو مختص کیے گئے 1.7 ارب روپے کا بھی آڈٹ کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ کے پی حکومت نے 18 ارب روپے سے زائد کورونا فنڈ لیے جس میں سے خیبر پختونخوا حکومت نے 80 کروڑ روپے کی فرضی دوائیاں اور سازوسامان خریدا جب کہ مہنگی کورونا دوائیاں خریدنے پر صوبائی حکومت کو 10 کروڑ کا نقصان ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ آڈٹ نے معاملے کی انکوائری کی سفارش کی ہے تاکہ ذمہ دار کا تعین کیا جاسکے۔ آڈیٹرز نے 1 کروڑ 43 لاکھ 58 ہزار روپے کے آلات کی مشکوک خریداری کی نشان دہی کی جس میں ذخیرہ اندوزی اور لاجسٹکس بھی شامل ہے، جب کہ فرنٹ لائن ورکرز جو کہ کوروناوائرس کے حوالے سے کام کررہے تھے انہیں فراہم کیے جانے والے موت کے معاوضے کے ریلیف پیکج میں 1 ارب روپے کی خردبرد کی نشان دہی بھی کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق 14 کروڑ روپے کے قرنطینہ سینٹرز بنانے کے فنڈ میں بے ضابطگیاں ہوئیں جب کہ ماسک، کورونا سازوسامان اوردوائیاں خریدنے میں 30 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں۔
اس کے علاوہ وائرس سے مرنے والوں کے لیے مختص فنڈز میں بھی کروڑوں روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کا ابھی تک کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔