محمد اسماعیل خان: ’’ہرات کا بوڑھا شیر‘‘ جو طالبان کی پیش قدمی روکے ہوئے ہے

کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) محمد اسماعیل خان ایک سابق افغان جنگجو ہیں اور حال میں وہ ہیرات صوبے پر طالبان کے قبضے میں محمد اسماعیل خان رکاوٹ کے طور پر ابھرے ہیں۔

گذشتہ دو ہفتوں میں اسماعیل خان نے ہتھیار دوبارہ اٹھائے ہیں اور ایک ملیشیا منظم کر کے وہ ہرات میں طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے افغان خبر رساں ادارے اور ماہرین ہرات شہر کا طالبان کے ہاتھوں میں نہ جانے کو ان کی ملیشیا کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

ایک نجی اخبار ارمانِ ملی نے یکم اگست کو اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ’اگر محمد اسماعیل اور ان کے کمانڈ میں موجود ملیشیا نہ ہوتی تو ہرات آج ہی طالبان کے قبضے میں آ جاتا۔ اسماعیل خان کا وقت پر اور بہادر ردعمل، اور ساتھ میں وہاں موجود پبلک تحریکی فورسز نے یہ خطرہ ٹال دیا ہے اور طالبان کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔‘

محمد اسماعیل خان کو ان کے حامی ’بوڑھا شیر‘ کہتے ہیں۔ وہ نسلی طور پر تاجک ہیں اور اس برادری میں ان کے بہت سے حامی موجود ہیں۔

وہ 1946 میں ہرات کے سنداد ضلع میں پیدا ہوئے اور کافی عرصے سے سیاسی جماعت جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہیں۔

1978 میں افغان فوج میں بطور ایک کپتان کام کرتے ہوئے انھوں نے کابل کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف سب سے بڑی بغاوتوں میں سے ایک کا انتظام کیا تھا اور 1979 میں سویت حملے کے بعد اہم ترین مجاہدین کمانڈروں میں سے ایک بن گئے تھے۔

1980 کی دہائی میں ان کے زیرِ کنٹرول ایک بڑی مجاہدین فورس تھی جو کہ مغربی افغانستان میں تھی۔

1992 میں وہ ہرات کے گورنر بن گئے اور اس عہدے پر 1995 تک رہے مگر جب اس صوبے پر طالبان نے قبضہ کر لیا تو انھیں ایران جانا پڑ گیا تھا۔

طالبان نے انھیں اپنی قید میں رکھ لیا تھا تاہم سنہ 2000 میں وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے اور انھوں نے طالبان مخالف ناردرن الائنس میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

جب امریکہ نے اگلے سال 2001 میں افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت گرائی تو وہ ایک مرتبہ پھر ہیرات کے گورنر بن گئے۔

ان کے حامی اُن کے دور میں عوامی انفراسٹرکچر میں بہتری کی کہانی سناتے ہیں جبکہ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ انھوں نے کسٹمز ریونیو کے نام پر لاکھوں افغانی جمع کر کے وفاقی حکومت کو نہیں پہنچائے۔

2005 میں انھیں حامد کرزئی کی حکومت میں وزیرِ پانی و تونائی مقرر کیا گیا اور 2013 تک وہ اسی عہدے پر رہے۔

2014 میں ایک اور سابق جنگجو عبد الرب رسول سیاف اور اسماعیل خان نے مل کر مشترکہ ٹکٹ پر صدارتی انتخاب لڑا تاہم ناکام رہے۔

گذشتہ کئی سالوں سے اور خاص طور پر طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی کے تناظر میں اسماعیل خان افغانستان میں پاکستان کے مبینہ کردار پر بہت تنقید کرتے رہے ہیں۔

چار اگست کو ایک ٹی وی چینل میں انھوں نے کہا کہ ’میں افغانستان کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ جنگ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان نہیں ہے۔ یہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان جنگ ہے۔ طالبان ان کے آلات ہیں جنھیں وہ استعمال کرتے ہیں۔‘

اسی طرح مارچ 2017 میں انھوں نے آریانہ نیوز ٹی وی چینل پر کہا ’یہ بہتر ہوگا کہ طالبان اس حقیقت کو پہچان لیں کہ روس، چین، ایران، پاکستان اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل کرنے سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک کہ تمام افغان ملک کر ایک متحدہ افغانستان نہ بنا لیں۔‘

اب جب اگست 2021 میں طالبان ہرات شہر کے دروازے پر کھڑے ہیں وہ ہرات میں لوگوں کی ہمت کو سراہتے ہیں۔

’ہمارے لوگ حق پر ہیں اور طالبان کو اس شہر پر چڑھائی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ دیگر اضلاع میں شکست اس جنگ کو ہمارے دروازے پر لے آئی ہے۔ مگر ہمارے لوگوں، بھائیوں بہنوں کی (طالبان مخالف) کارروائی ہماری مدد کر رہی ہے۔‘

اگست چار کو انھوں نے آریانہ نیوز کو بتایا کہ ’وفاقی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر ہمیں جن ہتھیاروں اور سہولیات کا دعوہ کیا گیا تھا وہ اب تک ہمیں نہیں دیے گئے۔ ہزاروں نوجوان ہراتی اپنے شہر کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔‘

ان کے بارے میں دیگر لوگ کیا کہتے ہیں؟

اسماعیل خان کی ہرات میں طالبان کے خلاف عسکری کاوش کو وفاقی حکومت اور افغان سیاسی رہنمائوں نے سراہا ہے۔

قومی مفاہماتی ہائی کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ کا کہنا ہے کہ ’ہم عسکری اور سول حکام اپنے مجاہد بھائی محمد اسماعیل خان کی جنگی قیادت اور مزاحمت کے شکرگزار ہیں اور ہم ہر طرح ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

جماعتِ اسلامی کے سربراہ صلاح الدین ربانی کا کہنا ہے کہ ’آج کل ہرات کے لوگوں کی محمد اسماعیل خان کی قیادت میں بہادری کے لیے شکر گزار ہیں اور یہ قابلِ فخر ہے۔ یہ مزاحمت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اس نازک مرحلے پر لوگ اپنے وقار اور اپنے عقائد کا دفاع کر سکتے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں