کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/بی بی سی) افغانستان میں طالبان کی جانب سے دو مزید صوبائی دارالحکومتوں سرِپل اور قندوز پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم باضابطہ طور پر تاحال سرکاری سطح پر اس حوالے سے تصدیق نہیں کی گئی۔
تاہم قندوز میں افغان حکام کے ذرائع نے بی بی سی کے نامہ نگار خدائے نور ناصر کو طالبان کے اس دعوے کی تصدیق کی ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے اتوار کی صبح جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے قندوز اور سرپُل پر مسلسل حملوں کے بعد آج صبح کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور دونوں صوبائی دارالحکومتوں کے تمام سرکاری دفاتر ان کے قبضے میں ہیں۔‘
ولایتهای قندوز و سرپل به دست مجاهدین امارت اسلامی فتح شدند https://t.co/h1xGuq7fdz pic.twitter.com/vA5AS8Cohp
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) August 8, 2021
اس سے قبل خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قندوز کی صوبائی کونسل کے رکن امرالدین ولی نے بتایا کہ ’شہر کے مختلف علاقوں کے چپے چپے میں شدید لڑائی جاری ہے۔‘
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے قندوز کے رہائشی عبدالعزیز نے بتایا تھا کہ ’طالبان شہر کے مرکزی سکوائر تک پہنچ چکے ہیں اور اس دوران ان پر فضائی بمباری ہو رہی ہے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔‘
گذشتہ روز صوبہ جوزجان کے دارالحکومت شبرغان پر طالبان کے قبضے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی تھی جبکہ دو روز قبل طالبان نے جنوب مغربی صوبے نمروز کے صوبائی دارالحکومت زرنج پر بھی قبضہ کیا تھا۔
اگر طالبان قندوز پر قابض ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اب تک ان کے قبضے میں آنے والے اہم ترین صوبائی دارالحکومت میں سے ایک ہو گا۔
ملک کے زیادہ تر دیہی علاقوں کا کنٹرول پہلے ہی افغان فورسز کے ہاتھ سے نکل کر طالبان کے پاس جا چکا ہے اور اس وقت افغان فورسز ملک کے شہروں کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان فواد امان نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ جوزجان کے شہر شبرغان سے طالبان کا قبضہ واپس لینے کے لیے امریکی فضائیہ کے بی 52 لڑاکا طیاروں نے گذشتہ شام طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں انھیں شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔
#Breaking: Taliban’s gathering was targeted by B-52 in #Shebergan city, Jawzjan province today evening at 6:30pm. The #terrorists have suffered heavy casualties as a result of US Air Forces #airstrike
— Fawad Aman (@FawadAman2) August 7, 2021
ان کی جانب سے ان فضائی حملوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’یہ حملے ان کی پناہ گاہوں اور اجتماعات پر کیے گئے تھے جن میں 200 سے زیادہ دہشتگردوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اسلحے اور سینکڑوں گاڑیوں کی تباہی کی اطلاعات بھی موجود ہیں۔‘
#Details: More than 200 terrorist Taliban were killed in #Cheberghan city after Air Forces targeted their gathering and hideouts today evening. A large amount of their weapons and ammunition and more than 100s of their vehicles were destroyed as a result of the airstrikes.
— Fawad Aman (@FawadAman2) August 7, 2021
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘افغان فورسز کے ننگرہار، لغمان، غزنی، پکتیا، پکتیکا، قندھار، اروزگان، ہرات، فراہ، جوزجان، سرِ پل، فریاب، ہلمند، نمروز، قندوز، بدخشان، تخار اور کپیسا میں مختلف آپریشنز میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 572 دہشتگرد اور 309 زخمی ہوئے ہیں۔’
572 terrorists were killed & 309 others were wounded as a result of ANDSF operations in Nangarhar, Laghman, Ghazni, Paktia, Paktika, Kandahar, Uruzgan, Herat, Farah, Jowzjan,Sar-e Pol, Faryab, Helmand, Nimruz, Takhar, Kunduz, Badakhshan & Kapisa Prov during the last 24 hours.
— Fawad Aman (@FawadAman2) August 8, 2021
طالبان نے ابھی تک اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ گروپ کے ارکان نے سنیچر کی سہ پہر گورنر آفس، پولیس ہیڈ کوارٹر اور جوزجان کے گورنر کے دفتر پر حملہ کیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز اور شہری باغی شہر سے فرار ہو چکے ہیں۔ طلوع نیوز کے مطابق اس وقت قندوز، سرِ پل، قندھار ، ہلمند ، بدخشان اور بلخ سے شدید لڑائی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی سنٹرل کمانڈ کے ترجمان نکول فریرا نے بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ ‘امریکی لڑاکا طیاروں کے مخصوص حملوں پر تبصرہ نہیں کر سکتے ، لیکن یہ کہ امریکی افواج نے افغان عوام کے دفاع میں حالیہ دنوں میں کئی فضائی حملے کیے ہیں۔’
افغان عوام 9/11 کے حملوں اور 2001 میں طالبان کے ٹھکانوں پر امریکی بمباری کی وجہ سے امریکی بی 52 فوجی طیاروں سے واقف ہیں۔
ان طیاروں کو عراق کے سابق صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ‘آپریشن انڈیورنگ فریڈم’ میں بھی استعمال کیا گیا تھا جو افغانستان میں طالبان کے زوال کا باعث بنے۔
’جوزجان میں لڑائی جاری ہے‘
جوزجان سے پارلیمنٹ کی رکن حلیمہ صدف نے بی بی سی کو بتایا کہ شہر کی دوسری جانب سکیورٹی فورسز اور مسلح شہریوں کو تعینات کیا گیا ہے اور لڑائی ابھی جاری ہے۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان میروائس ستانکزئی نے کہا کہ سکیورٹی فورسز مقامی باغیوں اور تازہ فورسز کی مدد سے شبرغان شہر کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
جوزجان میں پڑوسی صوبہ بلخ سے دوسری شاہین کور پر مارٹر حملوں کی بھی اطلاعات ہیں۔ شمال مشرقی صوبوں تخار اور بدخشان میں بھی شدید لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں اور تالقان اور اس کے ارد گرد لڑائی جاری ہے۔
صوبہ بدخشاں میں مقامی ذرائع نے بتایا کہ فیض آباد میں جھڑپوں میں چار سکیورٹی اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے جبکہ طالبان کی ہلاکت کی بھی خبریں سامنے آئی ہیں۔
جنوبی صوبے قندھار میں ساتویں ہیرو کور نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے نویں ضلع میں ڈان، میوند اور تخت پل اضلاع کے ساتھ فضائی اور کلیئرنگ آپریشن شروع کیے ہیں۔
پڑوسی صوبے ہلمند میں بھی شدید لڑائی کی اطلاعات ہیں۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے بھاری جانی نقصان کا دعویٰ بھی کیا ہے لیکن ان دعوؤں کو آزادانہ طور پر قبول نہیں کیا گیا ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے افغان فورسز کی حمایت میں حالیہ دنوں میں ہرات سمیت افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔
صوبہ جوزجان میں جنگ کے ساتھ ساتھ افغانستان بھر میں مختلف محاذوں پر حکومت اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
جبری نقل مکانی ملک میں سیاسی شکست کا نتیجہ ہے: یو این ایچ سی آر
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے افغانستان کی جنگ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور افغان بحران کے فوری حل کا مطالبہ کیا ہے۔
فلیپو گرانڈے نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر جبری نقل مکانی ملک میں سیاسی شکست کا نتیجہ ہے۔
عبدالصمد ہلمند کے ان ہزاروں لوگوں میں سے ہیں جو حالیہ لڑائی سے اپنے پیاروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لشکر گاہ میں لڑائی جاری ہے اور آدھے سے زیادہ خاندانوں کو حفاظت کے لیے ضلع میں بھیج دیا گیا ہے۔
ہلمند کے رہائشی نے بتایا کہ ہلمند میں لڑائی میں شدت آنے کے ساتھ ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ افغانستان میں لڑائی کی تازہ لہر نے عام شہریوں کو ملک بھر میں پھنسا دیا ہے ، کچھ لوگ دن رات خشک زمین پر بھی رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ ملک میں جنگ کی وجہ سے افغانستان میں اندرونی طور پر بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
فلپپو گرانڈے نے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا ہے کہ افغانستان میں اندرونی طور پر بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) اور ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
More and more Afghans are fleeing their homes. The number of displaced people is growing in and outside the country.
A solution to the conflict is urgently needed. Otherwise massive forced displacement will be just one of the grave humanitarian consequences of political failure.
— Filippo Grandi (@FilippoGrandi) August 7, 2021
اقوام متحدہ کے سینئر عہدیدار نے افغانستان میں جاری جنگ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر موجودہ بحران کو جلد حل نہ کیا گیا تو بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہو گی۔
دوسری جانب افغان مہاجرین کی وزارت کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔
وزارت کے مطابق، پچھلے چھ ماہ میں دو لاکھ افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
وزارت میں داخلی طور پر بے گھر افراد سے منسلک ادارے کی سربراہ مہر خدا صابر نے بی بی سی کو بتایا کہ صرف پچھلے مہینے میں 4000 خاندان لڑائی سے بے گھر ہوئے ہیں۔
’کئی صوبے، جیسے ہرات، جوزجان، نیمروز ، تخار اور کچھ دیگر میں وزارت اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے سروے اور تنازعات سے بے گھر ہونے والوں کی مدد بند کر دی ہے۔‘