کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے اپنے ایک ویڈیو بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’خدا اُن کے ساتھ حساب کرے گا‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کو افغان وزارتِ دفاع کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
Afghanistan President Ashraf Ghani has left the country for Tajikistan, senior interior ministry official says https://t.co/WPTOR8Oz9D pic.twitter.com/vneyf8QfJf
— Reuters (@Reuters) August 15, 2021
اب بھی کابل میں ہوں، امید ہے موجودہ صورتحال مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گی: حامد کرزئی
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو پیغام شائع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب بھی کابل میں ہیں۔
حامد کرزئی نے پیغام میں کہا کہ ’انھیں امید ہے کہ موجودہ صورتحال امن مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گی۔‘
حامد کرزئی نے طالبان اور سکیورٹی فورسز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سکیورٹی فورسز اور طالبان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، سکیورٹی برقرار رکھیں۔‘
انھوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے گھروں میں ’پرسکون‘ رہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم افغان قیادت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
طالبان کی جنگجوؤں کو کابل کی سکیورٹی سنبھالنے کی ہدایت
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے جنگجوؤں کو کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شہر میں لوٹ مار روکنے اور بدامنی سے بچنے کے لیے کابل کی سکیورٹی سنبھالنے کے احکامات دیے ہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’ہم شہر میں پرامن انداز میں داخل ہونا چاہتے تھے لیکن کیونکہ کابل میں سکیورٹی اہلکاروں اور پولیس کی جانب سے اہم مقامات چھوڑ دیے گئے ہیں جس کے باعث اب شہر میں غیر یقنی صورتحال ہے اور اس سے بچنے کے لیے ہم نے جنگجوؤں کو شہر میں داخل ہو کر سکیورٹی سنبھالنے کی ہدایت کی ہے
افغانستان تنازعے کے سیاسی حل کی ضرورت آج ماضی سے کہیں زیادہ ہے: نیٹو
افغانستان میں طالبان کے کابل تک پہنچنے کے بعد نیٹو کا کہنا ہے کہ ’افغانستان تنازعے کے سیاسی حل کی ضرورت آج ماضی سے کہیں زیادہ ہے‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے افغانستان کے دارالحکومت کابل تک پہنچنے پر 30 ممالک کے اتحاد نیٹو کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ’ہم اس تنازعے کے سیاسی حل کی تلاش کے لیے افغان کوشش کی حمایت کرتے ہیں اور ماضی کے مقابلے میں آج اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘
نیٹو اہلکار کا کہنا تھا کہ ’نیٹو مسلسل افغانستان میں بدلتی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کابل ہوائی اڈے پر آپریشنز بحال رکھنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں تاکہ افغانستان کا بیرونی دنیا سے رابطہ قائم رہے۔ ہم اپنی سفارتی نمائندگی بھی کابل میں قائم کیے ہوئے ہیں، ہمارے اہلکاروں کی سکیورٹی سب سے اہم ہے اور ہم حالات کے مطابق اس میں تبدیلی لا رہے ہیں۔‘
طالبان نے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے ملک سے علاقوں پر قابض ہونا شروع کیا تھا اور چند ہی دنوں میں وہ کابل تک پہنچ گئے ہیں۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اگلے چند دنوں میں پرامن طریقے سے ’اقتدار کی منتقلی‘ کے لیے پرامید ہیں۔
میں کسی بھی صورتحال میں طالب دہشتگردوں کے سامنے نہیں جھکوں گا: افغان نائب صدر
افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ کبھی بھی، کسی بھی صورت حال میں ’طالبان دہشت گردوں‘ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے ہیرو احمد شاہ مسعود کی روح اور یاد سے کبھی بے وفائی نہیں کروں گا جو میرے کمانڈر، لیجنڈ اور رہنمائی کرنے والے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں طالبان کے ساتھ کبھی ایک چھت کے نیچے نہیں بیٹھوں گا۔ کبھی بھی نہیں۔‘
افغانستان کی خواتین کا خوف: ہم نے کہا تھا نا شادی کر لو، اب طالبان ہاتھ مانگیں گے تو ہم کیا کریں گے‘
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور بڑھتے ہوئے کنٹرول کے باعث وہاں کی خواتین مایوس ہیں اور ایک بار پھر 20 سال پہلے کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہی ہیں۔
دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کرنے والے افغان حکومتی مشن میں چار خواتین بھی موجود ہیں لیکن اطلاعات ہیں کہ تشدد روکنے اور مؤثر اقدامات نافذ کرنے کے لیے نہ بات آگے بڑھی ہے اور نہ ہی طالبان سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
بی بی سی نے افغانستان کے مختلف علاقوں کی خواتین سے بات کی جنھیں اس تحریر میں ان ہی کی زبانی پیش کیا جا رہا ہے۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزاکوال کا کہنا ہے کہ طالبان کے کابل پہنچنے کے بعد اقتدار پرامن طریقے سے منتقل ہو گا اور اس کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ طاقت یا جنگ کے زور پر شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔
افغان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجو دارالحکومت کابل میں داخل ہوچکے ہیں
عینی شاہدین کے مطابق مسلح جنگجوؤں کو کابل داخلے کے دوران بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
طالبان نے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ کابل میں تشدد سے گریز کریں اور ایسے لوگوں کو حفاظتی مقامات پر منتقل ہونے دیں جو دارالحکومت سے نکلنا چاہتے ہیں۔
امریکہ نے کابل سے اپنے سفارتی عملے کی واپسی کا آپریشن شروع کر دیا ہے جبکہ برطانوی شہریوں اور عملے کی واپسی کے لیے قریب 600 فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔
کابل سے قبل جلال آباد اور مزار شریف پر طالبان نے مکمل کنٹرول کا دعویٰ کیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ افغان فوج کو خود ذمہ داری لینا تھی۔
امریکی اور غیر ملکی افواج طالبان کے ساتھ معاہدہ کے تحت بیس سال بعد افغانستان سے واپس جا رہی ہیں اور غیر ملکی افواج کا انخلا 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔
افغان کرکٹر راشد خان ’امن‘ کے لیے دعا گو
افغان کرکٹر راشد خان کی جانب سے ایک ٹویٹ میں لفظ ’امن‘ لکھا گیا ہے۔
اس سے قبل انھوں نے ایک ٹویٹ میں عالمی رہنماؤں سے درخواست کی تھی کہ ’میرے ملک میں اس وقت افراتفری کے حالت میں ہے، ہزاروں معصوم افراد جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں انھیں ہر روز شہید کیا جا رہا ہے اور گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
’ہزاروں خاندانوں کو بھی جبری منتقلی کا سامنا ہے۔ ہمیں اس افراتفری میں نہ چھوڑیں۔ افغانوں کو قتل کرنا اور افغانستان کو تباہ کرنا بند کریں۔ ہمیں امن چاہیے۔‘
کابل میں پھنسے بین الاقوامی صحافیوں کی معاونت کیلئے خصوصی سیل قائم: فواد چوہدری
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’کابل میں پریس سیکشن کو بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے کابل سے محفوظ انخلا کے لیے سینکڑوں ویزا درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس کے بعد اس حوالے سے ایک خصوصی سیل بنا دیا گیا ہے جو بین الاقوامی میڈیا کے صحافیوں کی معاونت کرے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے دعا گو ہیں۔‘
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جہاں ملک کے مستقبل کے بارے میں کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہیں اکثر لوگ بالخصوص نوجوان نسل تیزی سے پیش قدمی کرتے طالبان کی تاریخ سے اب بھی ناواقف ہے۔
افغانستان کے سیاسی رہنماؤں کے اعلیٰ سطحی وفد کی اسلام آباد آمد
پاکستان کے خصوصی مندوب برائے افغانستان محمد صادق کی جانب سے ایک ٹویٹ میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے افغانستان کے سیاسی رہنماؤں کے اعلیٰ سطحی وفد کو کچھ دیر قبل اسلام آباد میں خوش آمدید کہا ہے۔
اس وفد میں سپیکر میر رحمان رحمانی، صلاح الدین ربانی، محمد یونس قانونی، استاد محمد کریم خلیلی، احمد ضیا مسعود، احمد ولی مسعود، عبدالطیف پدرام اور خالد نور شامل ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے تھا کہ ’اس دورے کے دوران باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔‘
ہم خواتین کے حقوق، میڈیا نمائندوں اور سفارتکاروں کی آزادی کے تحفظ کا یقین دلاتے ہیں: طالبان
افغانستان میں طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق، میڈیا نمائندوں اور سفارتکاروں کی آزادی کا یقین دلاتے ہیں۔
بی بی سی کی صحافی یلدا حکیم سے ایک ٹی وی انٹرویو میں بات کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’ہم عوام خصوصاً کابل کے شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی جائیدادیں، ان کی زندگیاں محفوظ ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم خواتین کے حقوق، میڈیا نمائندوں اور سفارتکاروں کی آزادی کے تحفظ کا یقین دلاتے ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان پیش قدمی کرتے ہوئے اتوار کو افغانستان کے دارالحکومت کابل تک پہنچ گئے ہیں۔ جس کے بعد وہاں عوام میں خوف و ہراس اور غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ شہری لمبی قطاروں میں بینکوں کے باہر پیسے نکلوانے کے لیے موجود ہیں۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے قیادت نے جنگجوؤں کو کابل شہر میں داخل نہ ہونے اور شہر کے دروازوں پر رہنے کا حکم دیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگلے چند دنوں میں ہم پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کی توقع کرتے ہیں۔‘
امریکہ کی جانب سے جہاں کابل سے اپنے سفارتی عملے کا انخلا جاری ہے وہیں، اس وقت اس حوالے سے بھی موازنے کیے جا رہے ہیں کہ جنگ کے اختتام پر کس طرح امریکہ نے ویتنام چھوڑا تھا۔
یہ ایک اور ایسی جنگ تھی جہاں طویل عرصہ گزارنے کے باوجود امریکہ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کی جانب سے تیزی سے ملک چھوڑنے کے بعد کچھ ہی عرصے میں سیگن شہر پر بھی قبضہ کر لیا گیا تھا۔
وہاں موجود کچھ ویتنامی باشندوں اور امریکیوں کو سفارت خانے کی چھت پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس لے جایا گیا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے اس مرتبہ کابل سے لے جایا گیا ہے۔
ضرورت پڑنے پر کابل پولیس گرفتار کرنے اور گولی مارنے کی اجازت ہے: افغان وزارت داخلہ
افغان وزارت داخلہ نے کابل میں پولیس کو موقع پرستوں کو گرفتار کرنے اور ضرورت پڑنے پر انھیں ’گولی مارنے‘ کی اجازت دے دی ہے۔
بی بی سی کی پشتو سروس کے مطابق اس وقت اطلاعات کے مطابق کابل کے عوام افراتفری کے حالات میں لوٹ مار اور چوری کے بارے میں شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’طالبان گروپ کے بیان کے مطابق اگر وہ موقع پرست اور بدسلوکی کرنے والوں کو دیکھیں گے تو انھیں گرفتار کر لیا جائے گا اور اگر ضروری ہوا تو انھیں نکال دیا جائے گا۔‘
طالبان ’کابل پہنچ گئے
افغان وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجو دارالحکومت کابل میں داخل ہوچکے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق مسلح جنگجوؤں کو کابل داخلے کے دوران بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد کیا حالات ہیں؟ د
ہم جن طالبان جنگجوؤں سے ملے وہ افغانستان کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک مزارِ شریف سے صرف 30 منٹ کی مسافت پر تعینات تھے۔
انھوں نے ہمیں جو بطور ’مالِ غنیمت‘ (جنگ میں ہاتھ آنے والا سامان) ہمیں دکھایا اُس میں ایک ہموی جیپ، دو پک اپ ٹرک اور متعدد طاقتور مشین گنز شامل تھیں۔
سنجیدہ چہرے والے سابق مدرسہ طالبعلم اور اب مقامی ملٹری کمانڈر عین الدین مسلح مجمعے کے درمیان کھڑے ہیں۔
بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد جنگجو تقریباً ہر گزرتے روز کے ساتھ نئے علاقے اور شہر فتح کرتے جا رہے ہیں اور خوفزدہ عوام یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں ہزاروں کی تعداد میں عام افغان شہریوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے ہیں جبکہ سینکڑوں یا تو ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
کابل کی دیواروں پر موجود خواتین کی تصاویر پر سفیدی کر دی گئی۔
افغان نیوز سروس طلوع نیوز کے سربراہ لطف اللہ نجفی زادہ نے ایک ٹویٹ میں تصویر شیئر کی ہے جس میں کابل کی ایک دیوار پر ایک شخص کی جانب سے خواتین کی تصاویر پر سفیدی کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔
طالبان کی کابل کی جانب پیش قدمی کے بعد سے شہر میں موجود نوجوان خواتین کی جانب سے مدد مانگی جا رہی ہے۔
سنہ 2002 سے قبل جب طالبان کی افغانستان میں حکومت تھی تو ان کی جانب سے سنگساری، چوری کی صورت میں ٹانگیں کاٹنے اور 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنا شامل تھا۔
ایک طالبان اہلکار کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی سزاؤں کے نفاذ کا فیصلہ ’عدالتوں کی جانب سے کیا جائے گا۔‘
اس حوالے سے اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ طالبان کی جانب سے جن شہروں پر حال ہی میں قبضہ کیا گیا ہے وہاں خواتین کو بغیر کسی مرد باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور ان کی نوکریاں مردوں کے سپرد کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ان علاقوں میں خواتین کو برقعہ پہننے کا بھی کہا گیا ہے۔
کابل کے ہوائی اڈے پر پھنسے پی آئی اے کے طیارے کو پرواز کی اجازت مل گئی
پاکستانی ذرائع ابلاغ نے ملک کی قومی فضائی کمپنی کے ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ کابل کے ہوائی اڈے پر پھنسی دونوں پاکستانی پروازوں کو پرواز کی اجازت ملتے ہی روانہ کر دیا جائے گا۔
کابل کے ہوائی اڈے پر پی آئی اے کے دو طیارے موجود ہیں جن پر 499 مسافر موجود ہیں۔ ان میں سے ایئربس 329 پر 170 جبکہ بوئنگ 777 پر 329 مسافر ہیں۔
ترجمان کے مطابق کابل کا ہوائی اڈہ ممکنہ طور پر امریکا کے چار سی ون تھرٹی طیاروں کی کی لینڈنگ کی وجہ سے بند کیا گیا جو اب اتر چکے ہیں اور ہوائی اڈہ کھلتے ہی پاکستانی طیارے بھی پرواز کریں گے۔
کابل ایئرپورٹ پر دو امریکی ہیلی کاپٹروں نے محاصرہ کیا ہوا تھا جس کے باعث کابل ایئرپورٹ کو اچانک بند کردیا گیا اور پی آئی اے کے دو طیاروں کو پرواز کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اتنا وہ سنہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے۔
گذشتہ 20 برس میں افغانستان کے کن علاقوں پر کس کا قبضہ ہے اس کا نقشہ مستقل تبدیل ہوتا رہا ہے۔ ذیل میں بی بی سی نے حالیہ لڑائی کے بعد تیزی سے بدلتے نقشے پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
روس: کابل میں روسی سفارتخانہ خالی نہیں کیا جائے گا
روس نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ روس کا کابل میں اپنا سفارت خانہ خالی کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔کیونکہ طالبان نے روس اور کئی دوسرے ممالک کو سکیورٹی کی ضمانت دی ہے۔
دریں اثنا ، دنیا کے کیتھولک رہنما پوپ فرانسس نے افغانستان میں مسلح تصادم کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بات چیت ہی اس بات کو یقینی بنانے کا واحد طریقہ ہے کہ لوگ امن ، سلامتی اور باہمی احترام میں رہیں۔
’لوگ گاڑیوں میں چابیاں چھوڑ کر کابل ایئرپورٹ کی جانب دوڑ رہے ہیں‘
طالبان کی پیش قدمی کی خبریں سامنے آنے کے بعد سے کابل میں موجود اکثر افراد تیزی سے دارالحکومت چھوڑ رہے ہیں۔
اس وقت شہر کی مختلف شاہراہوں پر شدید رش ہے اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ بینکوں میں بھی خاصا رش ہے کیونکہ اکثر افراد اپنی جمع پونجی نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔
افغان رکنِ پارلیمان فرزانہ کوچائی جن سے ہم کچھ دیر پہلے بات کر رہے تھے، اس منظر کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں اپنے گھر میں ہوں، اور ایسے افراد کو دیکھ رہی ہوں جو فرار ہو رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں۔ گلیوں اور اپنے گھروں سے وہ بیگ اٹھائے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل اطلاعات کے مطابق طالبان کی جانب سے طورخم سرحد پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان نے طورخم سرحد بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد اب کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہی صرف ملک سے باہر جانے کا واحد ذریعے بن جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک شہری کا کہنا تھا کہ ’کچھ افراد نے اپنی گاڑیوں میں چابیاں چھوڑ کر ایئرپورٹ کی جانب بھاگنا شروع کر دیا ہے۔‘
عوام سے شکایات وصول کرنے کے لیے ٹیلی فون نمبر قائم کریں: غنی کا سکیورٹی اداروں سے مطالبہ
افغان صدر محمد اشرف غنی نے آج کابل کے سکیورٹی حکام سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔
اس کال میں غنی نے سیکورٹی ایجنسیوں، وزارت داخلہ اور دفاع کے عہدیداروں سے کہا کہ وہ عوامی شکایات اور معلومات حاصل کرنے کے لیے ٹیلی فون نمبر قائم کریں اور رابطے میں رہیں۔
طالبان نے افغانستان میں طورخم بارڈر کا کنٹرول سنبھال لی
آئی ایس پی آر نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کے ننگرھار پر قبضے کے بعد طورخم بارڈر بند کر دیا گیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے افغانستان کی جانب سرحد کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے اور وہ جگہ جگہ اپنا سفید پرچم لہرا رہے ہیں۔
اس دوران بارڈر پر تعینات افغان فورسز نے زیادہ مزاحمت نہیں دکھائی تھی اور اپنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
بارڈر پر موجود پاکستانی عہدیداران نے بتایا ہے کہ سرحد بند ہے اور وہاں تجارتی گاڑیوں کی ایک بڑی قطار دیکھی جاسکتی ہے۔ طالبان نے نقل و حرکت کے حوالے سے فی الحال پابندی عائد نہیں کی اور یہ پابندی پاکستان کی طرف سے ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام نے کابل میں صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور وہ جلد سرحد کھولنے یا نہ کھولنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے۔
سرحد پر اس وقت افغان شہریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں تازہ صورتحال کے بعد افغان پناہ گزین کی آمد کے حوالے سے حکومت نے لائحہ عمل طے نہیں کیا ہے۔ عام حالات میں افغان پناہ گزین کی پاکستان آمد کے لیے پاسپورٹ، مہاجر کارڈ اور دیگر دستاویزات درکار ہوتے ہیں۔ فی الحال یہ واضح نہیں کہ آیا نئے پناہ گزین کو بھی پاکستان آنے دیا جائے گا۔
یاد رہے اس سے قبل افغان طالبان نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن بارڈر پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
پاکستان سیاسی سمجھوتے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا: ترجمان دفترِ خارجہ
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا ہے کہ ’پاکستان افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان سیاسی سمجھوتے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔‘
ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ تمام افغان فریق اس اندرونی سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
کابل میں پاکستان کا سفارت خانہ پاکستانیوں، افغان شہریوں اور سفارتی اور بین الاقوامی برادری کو قونصلر کے امور اور پی آئی اے کی پروازوں کے ذریعے تعاون اور ضروری مدد فراہم کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سفارتی عملے، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، بین الاقوامی تنظیموں، میڈیا اور دیگر کے لیے ویزا/آمد کے معاملات کو آسان بنانے کے لیے وزارت داخلہ میں ایک خصوصی بین وزارتی سیل قائم کیا گیا ہے۔
طالبان کی برق رفتار پیش قدمی
طالبان نے افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کے بعد کابل کے علاوہ تمام بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
آئیے ذرا پیچھے مڑ کر ان کی برق رفتار پیش قدمی پر نظر ڈالتے ہیں:
اپریل: امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکی فوجی مئی سے لے کر 11 ستمبر کے دورانیے میں افغانستان سے نکل جائیں گے، جس سے امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مئی: طالبان نے جنوبی صوبہ ہلمند میں افغان فوج پر ایک بڑا حملہ شروع کیا اور دوسرے صوبوں میں بھی حملہ کیا۔
جون: افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی کا کہنا تھا کہ طالبان نے 370 اضلاع میں سے 50 سے زیادہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان نے جنوب میں اپنے روایتی گڑھوں سے دور شمال میں حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔
21 جولائی: ایک سینئر امریکی جنرل کے مطابق طالبان ملک کے تقریباً نصف اضلاع پر قابض ہیں۔
6 اگست: عسکریت پسندوں نے جنوب میں زرنج پر قبضہ کیا، جو کہ ایک سال میں ان کے قبضے میں آنے والا پہلا صوبائی دارالحکومت ہے۔
13 اگست: ایک دن میں طالبان نے مزید چار صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا، جن میں ملک کا دوسرا شہر قندھار بھی شامل ہے۔
14 اگست: طالبان نے شمالی شہر مزار شریف پر قبضہ کر لیا۔
15 اگست: طالبان نے بغیر کسی لڑائی کے مشرقی شہر جلال آباد پر قبضہ کر لیا اور کابل کو گھیر لیا۔
طالبان کی نفسیاتی جنگ
جب سے طالبان جنگجو کابل کے گرد و نواح میں پہنچے ہیں تب سے دارالحکومت کے شہری خوف میں مبتلا ہیں۔ سرکاری دفاتر خالی کرا لیے گئے ہیں اور دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ حکومتی سطح پر اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
کابل کے ساتھ موجود شہروں پر قبضے کے بعد یہ واضح تھا کہ طالبان اب کابل کو ہدف بنائیں گے۔ یہ واحد بڑا شہر تھا جہاں حکومت کو کنٹرول حاصل تھا۔
ممکنہ طور پر کئی جنگجو پہلے سے کابل داخل ہوچکے تھے یا کابل کے اندر ہی رہائش پذیر تھے۔
فوجی حکمت عملی کے اعتبار سے ان کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ کابل میں لڑائی کی صورت میں بہت زیادہ خونریزی ہوگی اور شہریوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ طالبان یہ جانتے ہیں اور وہ عالمی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اب بدل چکے ہیں۔
انھوں نے ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں اور حکومتی اہلکاروں کو باحفاظت نکلنے کی اجازت دی ہے۔ افغان فوج کے خلاف ان کی نفسیاتی جنگ اب تک کامیاب رہی ہے۔ کئی صوبے تو بغیر لڑائی کے ان کے قبضے میں آگئے تھے۔
کابل میں جہاں مغربی شہری ملک واپسی کی کوششیں کر رہے ہیں تو وہاں ممکن ہے کہ طالبان یہی کھیل کھیلیں گے۔
طالبان پہلے ہی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا سے انھوں نے دنیا کی سپر پاور کو شکست دے دی ہے۔
مقامی رہنماؤں کا یہ سوچنا کہ وہ امریکی اور برطانوی شہریوں کی وطن واپسی میں معاونت کر سکتے ہیں اور اس سے انھیں پروپگینڈا کی سطح پر بڑی فتح حاصل ہوگی، حیران کن نہیں۔
کابل کے شہری ’پہلے کبھی اتنے پریشان نہیں ہوئے‘
کابل میں بی بی سی کے ایک رپورٹر نے شہر کا حال بیان کا ہے: بہت سی دکانیں اور بازار بند ہیں اور کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ’پہلے کبھی اتنے پریشان نہیں ہوئے۔‘
کچھ سرکاری دفاتر بھی بند ہیں اور فوج اور پولیس اپنی اپنی جگہوں سے اپنی ڈیوٹی پوسٹس چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
کچھ علاقوں میں گولیاں چلنے اور چھوٹے دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
ایسی افواہیں آن لائن گردش کر رہی ہیں کہ طالبان کابل میں داخل ہو گئے ہیں۔ تاہم طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں کو کہا گیا ہے کہ وہ شہر کے دروازوں پر رہیں اور حملہ نہ کریں۔