اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت عوامی مفاد میں نوٹس لیا۔
علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری اطلاعات، سیکریٹری وزارت انسانی حقوق کو بھی معاملے کی رپورٹس کے ہمراہ 26 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
مذکورہ درخواست پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صحافیوں عمران شفقت، عبدالقیوم صدیقی، عامر میر اور امجد بھٹی کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
ساتھ ہی عدالت نے کیس کو مذکورہ بالا بینچ کے سامنے ہی 26 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو ہراساں کرنا اور ان کی آزادی اظہار رائے کا بنیادی حق تلف کرنا عوامی مفاد کا مسئلہ ہے۔
اس کے ساتھ سپریم کورٹ نے صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور مقدمات کی پیش رفت رپورٹس بھی طلب کر لی۔
مزید برآں عدالت نے سیف سٹی پراجیکٹ کی فوٹیج اور خرچے کی تفصیلات، وزارت اطلاعات کو ایک سال کے اشتہارات اور اس سے مستفید ہونے والوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔
درخواست کا پس منظر
خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے صحافی عامر میر اور عمران شفقت کو گرفتار کرنے کے بعد ضمانت پر رہا اور فوج، عدلیہ اور خواتین کی مبینہ تضحیک پر ان کے خلاف مقدمات درج کیے تھے۔
سائبر کرائم ونگ لاہور کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دونوں ملزمان کے خلاف مقدمات اعلیٰ ججز، پاک فوج اور خواتین سے متعلق تضحیک آمیز رویہ رکھنے پر پیکا کی دفعہ 11، 13، 20، 24 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 505، 500 ،469 اور 509 کے تحت درج کیا گیا۔
پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ان دونوں صحافیوں کے یوٹیوب پر گوگلی اور ٹیلنگز کے نام سے چینلز پر ایسے پروگرام نشر کیے گئے جس سے قومی سلامتی کے اداروں اور اعلیٰ عدلیہ کی بنیاد کو کمزور کرکے عوام کے ان اداروں پر اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔
واضح رہے کہ عامر میر معروف صحافی اور اینکرپرسن حامد میر کے بھائی ہیں۔
درخواست گزاروں کا مؤقف
صحافیوں کی دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ہم اخبارات اور ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتے تھے لیکن خبر کو دیانت داری سے رپورٹ کرنے کی وجہ سے ’بیرونی افراد‘ کی ایما پر ہمیں ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔
درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ اُن ’افراد‘ کی جانب سے کوئی خط یا رسمی شکایت نہیں کی گئی تھی بلکہ واٹس ایپ کال پر ہمارے آجر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل کو دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے ہمیں نوکریوں سے نہ نکالا تو ادارے کی انتظامیہ کو سنگین نتائج بھگتا پڑسکتے ہیں اور چینل بھی بند ہوسکتا ہے۔
صحافیوں کا کہنا تھا کہ ملازمتوں سے نکالے جانے کے بعد ہم میں سے اکثر نے یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے نیوز شوز شروع کیے لیکن یہاں بھی ہمیں ہراسانی، اٹھائے جانے، تشدد، ڈرانے، گولی مارنے اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔
ساتھ ہی کہا گیا کہ ہمیں اغوا کرنے، تشدد یا گولی مارے جانے کی خبریں بھی مین اسٹریم میڈیا میں شائع کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر کچھ اخبارات نے ایسا کیا تو انہیں سرکاری اشتہارات سے محروم کردیا گیا۔
صحافیوں کا کہنا تھا کہ صورتحال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ جن ریاستی اداروں کو ہمارا تحفظ کرنا تھا وہ ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرواتے ہیں جن کی نقل درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی شہری ہیں لیکن آزادانہ طور پر کام کرنے، سانس لینے سے قاصر ہیں اور ہم سے ہمارے بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ ہمارے موبائل فونز اور کمپیوٹرز غیر قانونی طور پر چھین لیے گئے جس میں ہماری ذاتی معلومات اور خفیہ ذرائع سے ملنے والے اطلاعات تھیں جو آئین کی دفعہ 13 کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزاروں کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے گھروں میں گھس کر اسلحہ تان کر تشدد کر کے اور اٹھا کر ہماری عزت اور رازدی اور آئین کی دفعہ 14 کی یومیہ خلاف ورزی جاری ہے اور ہم سے معلومات اگلوانے کے لیے ہم پر تشدد بھی کیا گیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ہماری زندگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور ہمیں سچ بولنے اور شائع کرنے سے روکا جارہا ہے کیوں کہ وہ کچھ لوگوں کے لیے پریشان کن ہوسکتا ہے۔
مزید برآں درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ ہمارے بنیادی حقوق یقینی بنانے کے لیے کارروائی کی جائے اور جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور پاکستان میں آزادی صحافت کا منظر نامہ خراب کرنے کا سبب بن رہے ہیں ان کے خلاف مناسب ایکشن لیا جائے۔