واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے/رائٹرز) امریکہ نے افغانستان سے انخلا کی کوششوں میں اپنے نیٹو اتحادی جرمنی کی معاونت کا شکریہ ادا کیا ہے۔امریکی فوج کے میجر جنرل ولیم ٹیلر نے یہ بات امریکی فوج کے جوائنٹ سٹاف کے ساتھ ایک پریس بریفنگ میں کہی۔ جس سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جرمنی یورپ کے ان ملکوں میں شامل ہے، جو امریکی فوج کی مدد سے افغانستان سے جان بچا کر نکلنے والے افغان شہریوں کو عارضی پناہ فراہم کر سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو جرمنی رامسٹین ایئربیس پر عارضی قیام کی اجازت دینے سے متعلق برلن نے واشنگٹن سے اتفاق کیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے جمعے کے روز امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی تھی کہ کابل سے نکالے جانے والے شہریوں کو مشرق وسطیٰ منتقل کیا جا رہا تھا، مگر اس کے سب سے بڑے فوجی اڈے پر اب مزید افغان پناہ گزینوں کو عارضی رہائش فراہم کرنے کی گنجائش ختم ہو رہی ہے۔
قطر میں الحدید ائیر پورٹ کے حالات سے واقف لوگوں نے بتایا ہے کہ وہاں انتظامات ناکافی ہیں۔ لوگ ہینگر میں ایئرکنڈیشنگ کے بغیر رہ رہے ہیں۔ بیت الخلا کم ہیں اور لوگوں کو محدود مقدار میں کھانا اور پانی مل رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کو الحدید ایئرپورٹ پر لاجسٹک کے مسائل میں مسلسل اضافے پر تشویش ہے، کیونکہ وہاں خوراک کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے متبادل جگہوں پر غور کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام افغانستان سے نکالے جانے والے پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایسے متبادل مقامات پر غور کر رہے ہیں جہاں ان کی خصوصی امیگریشن کی دستاویزات کا عمل مکمل ہونے تک وہ عارضی قیام کر سکیں۔
متحدہ عرب امارت اور دوسری کئی ملک امریکہ کو یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ وہ افغان مہاجرین کو عارضی قیام فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم رائٹرز کی خبر کے مطابق حکام کے خیال میں لاجسٹک اور دیگر سہولیات کے لحاظ سے یورپی مقامات بہتر ہیں۔
عہدیداروں نے بتایا کہ جمعہ کے روز کئی گھنٹوں تک انخلا کی پروازیں کابل سے نہیں روانہ ہو سکی تھیں، کیونکہ قطر کے الحدید ایئر بیس پر، جو وہاں امریکی فورسز کا مرکز ہے، منتقل کیے جانے والے لوگوں کا ہجوم ہو گیا تھا، جہاں پہلے ہی 8000 افغان باشندوں کو عارضی پناہ فراہم کی گئی ہے۔ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ انخلا کی پروازوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔
نیٹو کے مطابق، طالبان عسکریت پسندوں کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے جمعے تک 18 ہزار سے زائد افراد کو بیرون ملک منتقل کیا جا چکا ہے۔
امریکی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مہاجرین کے عارضی قیام کے مقامات میں بحرین جیسے مقامات شامل ہو سکتے ہیں۔ تاہم یورپ کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ لاجسٹک کے لحاظ سے وہ دوسرے علاقوں سے بہتر ہے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ ممکنہ طور پر یہ پروازیں مغربی اور جنوبی یورپ کے لیے ہوں گی۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مہاجرین کو رامسٹین ایئربیس پر عارضی قیام کی اجازت دینے سے متعلق برلن نے واشنگٹن سے اتفاق کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنے تمام شراکت داروں کے شکر گزار ہیں جو اس کوشش میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔
امریکہ 31 اگست سے پہلے لوگوں کو افغانستان سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم صدر جو بائیڈن نے اس ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو انخلاء اس کے بعد بھی جاری رہ سکتا ہے۔
افغانستان چھوڑنے کے خواہاں لوگوں کے لیے ایک اہم مسئلہ کابل ایئرپورٹ پر پہنچنا ہے۔ امریکہ اب تک امریکی شہریوں یا دوسروں کے لیے کابل ایئرپورٹ تک محفوظ راستے کو یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم، طالبان کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو وہاں جانے سے نہیں روکیں گے۔
دوسری جانب، ہزاروں افغان باشندے اپنی دستاویزات، بچوں اور کچھ سامان کے ساتھ ایئرپورٹ پر جمع ہیں۔ ایئرپورٹ کے باہر مسلح طالبان ان لوگوں کو گھر جانے کا حکم دے رہے ہیں جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں ہیں۔
نیٹو اور طالبان حکام نے بتایا ہے کہ اتوار سے اب تک ہوائی اڈے کے اندر اور اس کے ارد گرد 12 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ افغانستان سے ہزاروں لوگوں کو نکالنے کی اپنی کوششوں میں تیزی لا رہا ہے، کیونکہ امریکی قیادت والی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغان باشندوں کے خلاف طالبان کی انتقامی کارروائیوں کی اطلاعات میں اضافے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔