کابل (ڈیلی اردو) طالبان نے افغانستان کے صوبے پنجشیر میں مختلف اطراف سے پیش قدمی شروع کردی ہے جس کے بعد وہاں جنگ کے بادل ایک بار پھر منڈلانے لگے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان اور وادی پنجشیر کے معززین کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور اب تک کوئی بریک تھرو نہیں ہوا ہے۔
دوسری جانب طالبان نے ایک بار پھر وادی پنجشیر میں پیشقدمی کی ہے اور طالبان جنگجوؤں نے وادی سے متصل پہاڑوں اور چوٹیوں پر مورچے قائم کرلیے ہیں۔
افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگجوؤں کے دستے مختلف سمتوں سے وادی پنجشیر میں داخل ہوگئے ہیں۔
طالبان ادعا کوي چې ځواکونه یې پنجشېر ته ننوتلي ديhttps://t.co/jdmhNnxeNc pic.twitter.com/Xt39caVk8D
— TOLOnews (@TOLOnews) August 28, 2021
طالبان کے ثقافتی کمیشن کے رکن امان اللہ کا کہنا تھاکہ وادی میں داخلے کے وقت کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
تاہم وادی پنجشیر کی مزاحمتی فورس کے رکن نے طالبان کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔
Taliban propaganda machine is spreading fake news that they have entered Panjshir. These are false claims & should not be circulated by the mass media. Panjshir is well fortified & is impregnable. If the aggressors try to enter there, it will be the beginning of their end. A.M.N
— Panjshir_Province (@PanjshirProvin1) August 28, 2021
مزاحمتی فورس کے مذاکراتی وفد کے رکن محمد الماس زاہد نے بتایا کہ پنجشیر میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی داخل ہوسکا ہے۔
Massoud Supporters Reject Taliban Claim of Entering Panjshirhttps://t.co/csi2A3zqr3 pic.twitter.com/Vy3TWEBjcq
— TOLOnews (@TOLOnews) August 28, 2021
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو سنگین نتائج سامنے آئیں گے، اس سے جنگ اور غیرملکی مداخلت کا راستہ کھلے گا۔
طالبان کی کابل میں آمد کے ایک روز بعد 16 اگست کو سوشل میڈیا پر امراللہ صالح اور احمد مسعود کی ایک تصویر سامنے آئی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں طالبان مخالف اتحاد موجود ہے۔
ادھر افغان نائب صدر امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ ملک کے صدر کی غیر موجودگی میں وہ قانونی طور ملک کے نگران صدر ہیں۔ طالبان نے اشرف غنی کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور اب وہ متحدہ عرب امارات میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
امراللہ صالح جو افغانستان کی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، نے لوگوں سے کہا ہے کہ وادی پنجشیر کی مزاحمت میں شریک ہوں۔ امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ ’وہ کبھی طالبان کے ساتھ ایک چھت کے تلے نہیں بیٹھیں گے۔ کبھی بھی نہیں۔‘
امراللہ صالح کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے معروف کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے ہمراہ پنجشیر وادی میں موجود ہیں۔
یاد رہے کہ احمد شاہ مسعود، جنھیں ’پنجشیر کا شیر‘ کہا جاتا ہے، کو گیارہ ستمبر سے دو دن پہلے القاعدہ کے دو خودکش حملہ آوروں نے ایک حملے میں ہلاک کیا تھا۔
احمد شاہ مسعود کے 32 سالہ بیٹے احمد مسعود نے قومی مزاحمتی فرنٹ (این آر ایف) کے نام سے ایک طالبان مخالف اتحاد قائم کیا ہے۔
احمد مسعود نے پچھلے ہفتے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ وہ طالبان کے خلاف مزاحمت کے آخری گڑھ پنجشیر کا ہر صورت میں دفاع کریں گے۔ گزشتہ دنوں احمد مسعود نے اعلان کیا تھا کہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مرنا پسند کروں گا۔
واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے ایک آرٹیکل میں احمد مسعود نے کہا کہ ان کے جنگجوؤں کو افغان فوج اور سپیشل فورسز کی حمایت حاصل ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ان کے پاس اسلحے کا ایک ذخیرہ ہے جو انھوں نے ماضی سے اکٹھا کرنا شروع کر رکھا تھا کیونکہ انھیں اندازہ تھا کہ ایک وقت آ سکتا ہے جب اس کی ضرورت پڑے گی۔
خیال رہے کہ طالبان اور مزاحمتی فورس کے درمیان افغان دارالحکومت کابل میں مذاکرات جاری ہیں اور گزشتہ دنوں فریقین کے درمیان ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔
واضح رہے کہ وادی پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے اور اس کے علاوہ وہ تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔
وادی پنجشیر ناقابل تسخیر کیوں؟
افغان صوبہ پنجشیر اب بھی ناقابل تسخیر ہے اور طالبان بھی اب تک وہاں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پنجشیر اس سے قبل پروان صوبے کا حصہ تھا جسے 2004 میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔
پنجشیر صوبے کا دارالحکومت بازارک ہے، یہ سابق جہادی کمانڈر اور سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کا آبائی شہر ہے۔
80 کی دہائی (1979-1989) میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کر رکھی تھی تو پنجشیر وادی اس وقت بھی مزاحمت کا مرکز تھی اور پنجشیر کے جنگجوؤں نے متعدد مرتبہ سوویت اور افغان فوجوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کو ناکام بنایا تھا۔
اور پھر طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996-2001) میں اسی خطے سے طالبان کے خلاف بھرپور مزاحمت ہوئی اور پورے افغانستان پر قبضہ کر لینے اور اپنی حکومت قائم کرنے کے باوجود طالبان کبھی بھی پنجشیر وادی پر اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔