اسلام آباد (ڈیلی اردو/روئٹرز/ڈوئچے ویلے) پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے طالبان کے ساتھ تعاون کریں۔
➖ Bilaterally, we deeply value our longstanding relations with Germany, now in our 70th year of friendship. We will soon inaugurate the Consulate General of Pakistan in Munich & are working to establish Iqbal-Goethe Center in Heidelberg. pic.twitter.com/KtfsEBBWfb
— Shah Mahmood Qureshi (@SMQureshiPTI) August 31, 2021
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے جرمن ہم منصب ہائیکو ماس سے ملاقات کے بعد افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی غلطیاں دوہرائی نہیں جانا چاہییں۔ قریشی کے بقول، ”ہم معاشی تباہی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔‘‘
‘طالبان جلد حکومت قائم کریں گے‘
پاکستان کے سرکاری دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ نے اس پریس کانفرنس میں کہا کہ طالبان بیرون ملک جانے کے خواہش مند افغان باشندوں کو ملک سے روانگی کی اجازت دینے کا وعدہ کر چکے ہیں تاہم یہ بات آئندہ دنوں اور ہفتوں میں ہی واضح ہو سکے گی کہ آیا طالبان پر اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔
➖Pakistan’s policy is clear: we support a politically inclusive, sovereign & prosperous Afghanistan, at peace with itself & neighbours.
➖The safety & security of Afghan people and protection of their rights imp & Int’l community must remain closely engaged.— Shah Mahmood Qureshi (@SMQureshiPTI) August 31, 2021
علاوہ ازیں شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ طالبان جلد ہی حکومت قائم کریں گے۔ اس کے جواب میں ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ طالبان نئی حکومت بنانا تو چاہتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس حکومت میں جرمنی کی درخواست کے مطابق تمام دھڑوں کو نمائندگی حاصل ہوگی یا نہیں۔ جرمن وزیر خارجہ کے مطابق برلن حکومت افغان طالبان کی طرف سے نئی حکومت کے قیام کا انتظار کرے گی اور دیکھے گی کہ آیا یہ عسکریت پسند گروہ اپنے بیان پر قائم رہتا ہے۔
افغانستان کے ہمسایہ ممالک کیساتھ مذاکرات
طالبان کی جانب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالے جانے کے بعد سے مغربی ممالک میں یہ بحث جاری ہے کہ طالبان سے کیسے نمٹا جائے، آیا افغانستان کے لیے ترقیاتی امداد جاری رکھی جائے، اور طالبان کو تسلیم کیا جائے یا نہیں؟ دوسری جانب افغان طالبان کہتے ہیں وہ سن 1990 کی دہائی کے مقابلے میں اب بدل چکے ہیں۔
As a neighbor, #Pakistan is directly affected by the crisis in #Afghanistan. Germany will continue to support the region. In addition to our financial commitments, we will pursue and implement specific projects, e.g. on border control. @HeikoMaas after talks in #Islamabad pic.twitter.com/oc0E7ybKBJ
— GermanForeignOffice (@GermanyDiplo) August 31, 2021
ہائیکو ماس افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر ترکی، ازبکستان، تاجکستان اور پاکستان کے بعد قطرکے دورے کے لیے روانہ ہوں گے۔ انہوں نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو نہ صرف مالی امداد بلکہ بارڈر مینجمنٹ اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مدد کی پیشکش بھی کی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرجد دو ہزار چار سو پچاس کلومیٹر طویل ہے۔
جرمن وزیر خارجہ کے مطابق جرمنی افغانستان سے اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہے اور یہ تعاون آئندہ بھی جاری رہے گا۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے طالبان کی جانب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالے جانے کے بعد افغان باشندوں کو پاکستان میں پناہ دینے کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
قبل ازیں جرمنی میں تعینات پاکستانی سفیر محمد فیصل نے پاکستان کے اس ہمسایہ ملک سے مزید مہاجرین کے ممکنہ داخلے کو مسترد کر دیا تھا۔ پاکستانی سفیر نے جرمن روزنامہ ٹاگیس اشپیگل کو بتایا کہ پاکستان ایسے افغان باشندوں کی پوری طرح مدد کر رہا ہے، جو وطن چھوڑ کر دیگر ممالک میں جانا چاہتے ہیں۔