کراچی (ڈیلی اردو/این این آئی) سابق جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر جو الزام عائد کیا گیا تھا وہ مبینہ واقعہ افغانستان میں پیش آیا تھا اور قانونی اصول یہ ہے کہ جس ملک میں جرم سرزد ہو اہو مقدمہ بھی اسی ملک کی سرزمین پر چلتا ہے۔ افغانستان میں سرزد ہونے والے جرم کا ٹرائل امریکہ میں کیسے ہوا اگر قانون کی پاسداری کی جاتی تو عافیہ کا کورٹ مارشل افغانستان میں ہوسکتا تھا۔ امریکی عدالتوں کو مقدمہ چلانے کا اختیار نہیں تھا۔ وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کے لئے جاری جدوجہد کے سلسلے میں کراچی پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ مختلف سیاسی و سماجی رہنما بھی موجود تھے۔
عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جو چھیاسی سال کی سزا دی گئی ہے اس عدالتی ٹرائل میں جیوری کی، واقعات سے متعلق رائے درست نہیں تھی۔ ایسے اہم مقدمات کے فیصلے ساری دنیا میں سرکولیٹ (Circulate) ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ جیسی جسمانی ساخت اور قوت رکھنے والی خاتون وہ گن (Gun) نہیں اٹھا سکتی تھی جس کا ان پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ اگر انہوں نے گن اٹھا بھی لی تھی تو کسی کا بھی بال تک بیکا نہیں ہوا تھا پھر بھی 86 سال کی سزا دے کر درحقیقیت انہیں’’ سزائے موت‘‘ (virtual death swntence) انائونس کر دی گئی تھی۔
جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے مزید کہا کہ عافیہ کے خلاف کارروائی کے سارے معاملے کو حکومت پاکستان کو اعلی سطح پر اٹھانا چاہئیے تھا۔ امریکی صدر عام طور پر اپنے دور صدارت کے آخری ایام میں ملزمان کو معافی دینے کا استحقاق استعمال کیا کرتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فیملی کو بھی گائیڈ کرنا چاہئیے تھا کہ وہ امریکی صدر سے عافیہ کی رہائی کی بات کریں اور خود بھی اپنی بے گناہ شہری کی رہائی کی بات کرنی چاہئیے تھی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ابھی عافیہ پر حالیہ ہونے والا حملہ انتہائی تشویش کی بات ہے جس میں نہ صرف عافیہ کا چہرہ بری طرح جھلس گیا بلکہ ہاتھ پر زخم بھی آئے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل نے رپورٹ دی ہے کہ ماضی میں بھی عافیہ صدیقی پر اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ عافیہ کو وہ حقوق بھی حاصل نہیں ہیں جو کہ ایک قیدی کو حاصل ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو بہت پہلے ہی جائزہ لینا تھا کہ عافیہ کے معاملے کو اگر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جانے میں کوئی قباحت ہے تو کیا انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہی پھر انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کو بھی مطلع کر کے مسئلے سے رجوع کرنے کی سعی کی جا سکتی تھی۔
عافیہ موومنٹ کو انٹرنیشنل لاء کے ایکسپرٹس کا ایک پینل ترتیب دینا چاہئیے جس سے میں بلا معاوضہ ہر طرح کے ضروری تعاون کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کون ہے؟
پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک سائنسدان ہیں جن پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔
مارچ 2003 میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے اہم کمانڈر اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں تھی۔
عافیہ صدیقی کی گمشدگی کے معاملے میں نیا موڑ اُس وقت آیا جب امریکا نے 5 سال بعد یعنی 2008 میں انہیں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔
امریکی عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائنائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔
دوسری جانب جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی افسران نے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی لیکن جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں۔
بعدازاں عافیہ صدیقی کو امریکا منتقل کیا گیا، ان پر مقدمہ چلا اور 2010 میں ان پر اقدام قتل کی فرد جرم عائد کرنے کے بعد 86 برس قید کی سزا سنا دی گئی۔