کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جب پہلی پریس کانفرنس کی اور اس میں انتہائی تحمل کے ساتھ صحافیوں کے والوں کے جواب دیے، تو ایک لمحے کو محسوس ہوا کہ شاید ماضی کے برعکس طالبان کے زیر اثر افغانستان میں اب صحافی بلاخوف اور آزادی کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سر انجام دے سکیں گے۔
لیکن صحافیوں پر تشدد کے تازہ ترین واقعات نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا ہے اور کابل سمیت افغانستان کے کئی علاقوں میں گذشتہ کچھ روز سے جاری احتجاج کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر تشدد نے طالبان کے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
Two Afghan journalists were left with ugly welts and bruises after being beaten and detained for hours by Taliban enforcers for covering a protest in the Afghan capital Kabul, the pair told AFP https://t.co/F7bHSC6XeC
— AFP News Agency (@AFP) September 9, 2021
ایسی کئی خبریں، ویڈیوز اور تصاویر تو آپ دیکھ چکے ہوں گہ جس میں طالبان احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے شدید فائرنگ کرتے ہیں لیکن اب کچھ ایسی بھی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جس میں طالبان کے تشدد کا نشانہ بننے والے افغان صحافیوں کو اپنے پاؤں پر بمشکل چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اصلاح می کنم:
همکاران مورد خشونت قرار نگرفته اند، آنها «شکنجه» شدهاند. شدید، متفاوت و بی سابقه. در طی چهار ساعت، چهار بار بیهوش شدهاند و به هوش آمده اند. می توانست حتی حالا زنده نباشند. بدن شان کبود و راه راه سیاه سیاه است. آنها شکنجه شدهاند بسیار طولانی و بیرحمانه. pic.twitter.com/bkA8eGWC0i— Zaki Daryabi (@ZDaryabi) September 8, 2021
یہ وہ افغان صحافی ہیں جو ملک کے مختلف شہروں میں جاری مظاہروں کی کوریج کر رہے تھے۔
افغان خبر رساں ادارے ’اطلاعات روز‘ کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز اس کے پانچ صحافیوں کو حراست میں لیا گیا اور ان میں سے دو کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
https://twitter.com/yamphoto/status/1435738713452158979?s=19
’اطلاعات روز‘ کے ایڈیٹر ذکی دریابی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ان دو صحافیوں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں، جنھیں طالبان نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
د اطلاعات روز ورځپاڼې دوه خبریالان تقي دریابي او نعمتالله نقدي د طالبانو له لوري تر نیولو وروسته، ډېر سخت وهل ډبول شوي دي.#Afghanistan https://t.co/zQBc26KTlh
— اطلاعات روز | Etilaatroz (@Etilaatroz) September 8, 2021
واضح رہے کہ طالبان نے احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگا رکھی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے کے لیے وزارت انصاف سے اجازت لینا ہو گی جس کے بعد سکیورٹی سروسز کو احتجاج کے وقت اور جگہ کے بارے میں معلومات دینا ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ بینرز اور نعروں کی تفصیلات بھی بتانا ہوں گی۔
Face of journalist in #Kabul. pic.twitter.com/Pwjjgtq0RI
— Zaki Daryabi (@ZDaryabi) September 8, 2021
دوسری جانب یورو نیوز کی نامہ نگار اینیلیس بورخیز نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ایک افغان ساتھی بدھ کے روز جب طالبان سے ایک احتجاج کی کوریج کی اجازت لینے گئے تو انھیں تین گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔
اینیلیس بورخیز نے بتایا: ’میرے صحافی ساتھی کو منہ پر کئی تھپڑ مارے گئے۔ وہ حواس باختہ ہو گئے۔ ان کے فون اور بٹوے کو ضبط کر لیا گیا۔‘
زیر حراست صحافی کی روداد
بی بی بی نے ایک ایسے افغان صحافی سے بھی بات کی ہے جنھیں منگل کے روز کابل میں ایک احتجاج کی کوریج کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’طالبان نے بہت سے مظاہرین اور صحافیوں کو حراست میں لیا۔ انھوں نے میرا فون، مائیک اور دیگر سامان قبضے میں لے لیا۔ انھوں نے مجھے بار بار اپنے ہاتھوں اور کتابوں سے مارا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں صحافی ہوں لیکن انھوں نے میری بات نہیں سنی۔ میں نے انھیں کچھ لوگوں کو بندوقوں سے مار پیٹ کرتے بھی دیکھا۔ انھوں نے میری ساری ویڈیوز ڈیلیٹ کر دیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا: ’میرے فون کے ڈسپلے پر ایک مرد اور عورت کی ایک دوسرے کو گلے لگاتے تصویر تھی۔ اس سے طالبان کمانڈر کو بہت غصہ آیا اور اس نے زور سے فون میرے منھ پر مارا۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
افغانستان میں طالبان کے قبضے کو ایک ماہ ہونے والا ہے اور تقریباً ہر روز ہی سوشل میڈیا پر طالبان کے زیر حکومت افغانستان سے کوئی نئی خبر ہی موصول ہوتی ہے۔
منگل کی شام کو طالبان نے جب اپنی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں خواتین کی عدم شمولیت پر دنیا بھر سے خاصا ردعمل دیکھنے کو ملا، افغان خواتین اور نوجوانوں کے اپنے حقوق کے لیے مظاہرے بھی آج کل دنیا بھر کی خبروں میں ہیں اور اب ان مظاہروں کی کورریج کرنے والے افغان صحافیوں پر تشدد نے افغانستان میں آزادی صحافت اور انسانی حقوق کے مستقبل سے متعلق تحفظات کو جنم دیا ہے۔
طالبان کی جانب سے صحافیوں پر تشدد پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی صحافی رزشتہ سیٹھنا نے لکھا: ’کابل میں احتجاج کی کوریج کرنے پر صحافیوں کی پٹائی اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔ وہ کسی اپوزیشن کو برداشت نہیں کریں گے اور انھوں نے اپنے جنگجوؤں کو شہریوں کی مار پیٹ نہ کرنے اور میڈیا کو اپنا کام کرنے کی اجازت دینے سے متعلق تربیت نہیں دی۔‘
Journalists beaten by the Taliban in #Kabul for covering protests is evidence that the Taliban don’t respect human rights, will not tolerate any form of opposition, haven’t trained foot soldiers to stop abusing/whipping citizens & the media doing its job https://t.co/G3RPwgXbEp
— Razeshta Sethna (@Razeshta) September 8, 2021
پاکستان کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے لکھا: ’آزاد میڈیا اور جہموری آزادی پر یقین رکھنے والے ہر شخص کو طالبان کے صحافیوں پر تشدد کی مذمت کرنی چاہیے۔‘
“ Exclusion has become the trade mark of Taliban and that’s what has ignited the anti Taliban resistance so quickly, both the armed struggle in Panjsher and the women led youth protests in urban centres.” My latest article on Afghanistan. https://t.co/lwiUdkzNs8
— Afrasiab Khattak (@a_siab) September 9, 2021
ساحل کاظمی نامی صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا: ’0۔2 طالبان، جیسے بہت سے لوگ دعویٰ کر رہے تھے، افغانستان کے لوگوں کے ساتھ بہترین رویے کا اظہار کر رہے ہیں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا: ’طالبان کابینہ کے اعلان کے بعد اب حکومتی عہدیدار مار پٹائی کریں گے۔‘
ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر جون سفٹن نے لکھا: ’طالبان نے کہا تھا کہ وہ میڈیا کی آزادی کا احترام کریں گے لیکن عملی طور پر وہ صحافیوں کو مار پٹائی کر رہے ہیں اور انھیں دھمکا رہے ہیں۔‘
ہیومن رائٹس واچ ایشیا کی ہی ایوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریکیا گوسمین نے لکھا: ’طالبان حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ جب تک میڈیا ’اسلامی اقدار کی عزت‘ کرے گا انھیں کام کرنے کی اجازت ہو گی لیکن وہ صحافیوں کو مظاہروں کی رپوٹنگ سے روک رہے ہیں۔‘
https://twitter.com/pagossman/status/1435667428260909065?s=19
سوشل میڈیا انفلوئنسر حنانیا نفتالی نے لکھا: ’بہادر صحافی سچ سامنے لا رہے ہیں اور طالبان کو اس سے نفرت ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا: ’افغان صحافی کو اتنا مارا گیا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ طالبان کو تاریخ کی کتابیں دوبارہ پڑھنا ہوں گی تاکہ انھیں یاد آ سکے کہ جب انھوں نے افغانیوں پر وحشیانہ قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی تو ان کا خاتمہ کیسے کیا گیا۔‘
Afghan Journalist beaten to the extent, that he can’t even stand on his own two feet.Talibs must revisit books of history to recall how they were Demolished the last time they tried to Impose their Barbaric Rules on Afghans. pic.twitter.com/zJAjA3HteF
— Khorasani (@Khorasa49817451) September 8, 2021