بیجنگ (ڈیلی اردو/شنہوا/وی او اے) چین نے بدھ کے روز افغانستان کے لیے تین کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا، جو کہ طالبان کی قیادت والے ملک کے لیے پہلی نئی غیر ملکی امداد ہے۔
امدادی پیکیج میں خوراک، موسم سرما کی نوعیت کی رسد اور کووڈ 19 ویکسین کے ڈوزز پر مشتمل کئی اشیا شامل ہوں گی۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘شنہوا’ نے خبر کے مطابق چین نے فوری طور پر افغان عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 30 اعشاریہ 96 ملین (200 ملین یوئان) کی مالیت کی گندم، موسم سرما کے گرم کپڑے، ویکسین اور ادویات روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے”۔
امدادی پیکیج کے اس اعلان سے ایک روز قبل چین نے کہا تھا کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ نقل و حمل کے راستے کھولنے والا ہے۔
پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے اپنے ہم منصبوں سے گفتگو کرتے ہوئے، چین کے وزیر خارجہ، وینگ یی نے کہا کہ اس امداد سے تباہ حال ملک اپنی تعمیر نو کا کام کر سکے گا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ چین انسداد دہشت گردی اور منشیات کے کالے کاروبار کے خاتمے میں بھی افغانستان کی مدد کرے گا۔
چین کے روزنامہ ‘ساؤتھ چانیا مارننگ نیوز’ کے مطابق، ”طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کو چین افغان عوام کے لیے انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے”۔
بقول ان کے، ”داخلی امور کی بحالی اور جنگ کے بعد تعمیر نو کے حوالے سے یہ ایک ضروری اقدام ہے”۔
وینگ نے طالبان پر زور دیا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے مراسم ترک کر دے۔ چین نے الزام لگایا کہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک سنکیانگ میں حملے کرتی رہی ہے۔
اقوام متحدہ نے اس ہفتے خبردار کیا تھا کہ افغانستان کو اگلے سال کے وسط تک “شدید غربت” کا سامنا کرنا پڑے گا، تاوقتتکہ مقامی کمیونٹیز اور ملک کی معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے مزید اقدامات نہ کیے جائیں۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان کی معیشت کو جنگ کی صورت حال سے باہر نکلنے میں مدد کے عالمی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے۔
سفیر اسد مجید خان نے کہا کہ اگر عالمی برادری افغانستان کو نظرانداز کرنے کا انتخاب کرتی ہے تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے اور اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر مہاجرین کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
کابل میں چین کا سفارت خانہ کام کر رہا ہے، اور طالبان نے کہا ہے کہ وہ بیجنگ کو اپنے ملک کی تعمیر نو کے لیے ایک اہم شراکت دار سمجھتے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ ہفتے سی این این کو بتایا تھا کہ “ہمارے پڑوس میں چین ایک بہت اہم اور مضبوط ملک ہے، اور ماضی میں ہمارے چین کے ساتھ بہت مثبت اور اچھے تعلقات رہے ہیں۔” ہم ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور باہمی اعتماد کی سطح کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
تاہم، ابھی تک بیجنگ نے باضابطہ طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو کہا تھا کہ امریکہ طالبان کو تسلیم کرنے سے بہت دور ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کو کہا کہ وہ طالبان کی عبوری حکومت میں دیگر نسلی گروپوں اور اقلیتوں کے نہ ہونے سے مایوس ہوئے ہیں۔
چین اور افغانستان کے درمیان تقریباً 50 میل کی سرحد مشترکہ ہے۔