پشاور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) حاليہ دنوں ميں درجنوں افغان فنکاروں نے پاکستان کا رخ کيا ہے۔ طالبان کے خوف ميں مبتلا يہ فنکار صوبہ خيبر پختونخوا کے مختلف علاقوں ميں پہنچے اور مقامی حکام اور افراد نے انہيں کُھلے دل سے قبول کيا۔
افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام کے بعد درجنوں افغان فنکار اپنا وطن چھوڑ کر پاکستان کے مختلف شہروں میں پہنچ گئے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اب تک پچاس سے زیادہ افغان خاندان پہنچ چکے ہیں۔ اکثريتی فنکار سرحد پر طورخم کی گزر گاہ کے راستے پاکستان پہنچنے کے بعد اب صوبے کے مختلف شہروں میں قیام پذیر ہیں۔ ان فنکاروں میں سے تقريباً سب ہی خوف کے مارے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
ان فنکاروں ميں سے بعض کا تعلق افغانستان کے سرکاری ریڈیو سے ہے۔ گلوکاروں کی بھی ايک بڑی تعداد پناہ کے ليے پاکستان پہنچی ہے۔ پشاور پہنچنے والے ايسے ہی ایک افغان موسیقار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”ميں نے موسیقی پشاور میں سیکھی تھی۔ پھر جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے نئی حکومت بنی، تو ہم اس نیت سے واپس افغانستان گئے تھے کہ ہماری حکومت ہمیں سہارا دے گئی اور اپنے فن کو آگے بڑھانے میں ہماری معاونت کرے گی۔ لیکن ایسا بالکل نہ ہوا۔ ٹیلی وژن اور ریڈیو سے وابستہ اکثريتی فنکار، نجی محفلوں میں شرکت کر کے اپنا گھر بار چلاتے رہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے ابھی تک کسی فنکار کو براہ راست دھمکی تو نہیں دی لیکن انہيں طالبان کا سابق دور بھی یاد ہے۔ انہيں خدشہ تھا کہ طالبان ایک بار پھر سے فنکاروں کو تنگ کريں گے۔ ”ہمیں اپنے اور اپنے اہل خانہ کی زندگیوں کو خطرہ محسوس ہوا، تو پاکستان کا رُخ کیا ہے۔‘‘
نوے کی دہائی ميں جب افغان طالبان نے اقتدار سنبھالا تھا، تو انہوں نے موسیقی پر پابندی لگا دی تھی۔ يہ پابندی غير ملکی فورسز کی آمد تک جاری رہی تھی۔ طالبان کے دور حکومت ميں فن سے وابستہ زیادہ تر افغان شہری ہجرت کر کے یورپ اور ديگر ممالک چلے گئے تھے۔
پشاور کے بورڈ بازار کے نواح میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لينے والے ایک اور افغان فنکار نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ” کچھ عرصہ قبل تک نئے فنکاروں کو بھی اپنے فن کو آگے بڑھانے کا موقع مل رہا تھا لیکن اب جبکہ ایک بار پھر سے طالبان کی حکومت آ گئی ہے، زیادہ تر فنکاروں کو خدشہ ہے کہ جوں وہ مستحکم ہوں گے، موسیقی پر دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی۔ ساتھ ہی فنکاروں کے ليے مشکلات بھی بڑھ جائيں گی۔ یہی وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے زیادہ تر فنکار ملک چھوڑ کر اپنے اہل خانہ کو محفوظ مقامات تک پہنچا رہے ہیں۔‘‘
طالبان نے حال ہی ميں اعلان کرايا تھا کہ ‘گلوکاروں کو قائل کریں کہ وہ گانا بجانا ترک کر دیں‘۔ اور اس اعلان کے بعد ہی فنکاروں نے خطرے کی بو محسوس کی اور ملک چھوڑنے کی کوششيں شروع کر ديں۔
پشتو زبان کے فنکاروں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستانی صوبہ پختونخوا اور صوبہ بلوچستان کا رخ کیا لیکن وہاں پہنچ کر بھی انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے پاکستان کے ان علاقوں ميں ان دنوں موسیقی وغيرہ کے پروگرام نہيں ہو رہے۔ پچھلے دنوں تک خیبر پختونخوا کے کئی مقامی فنکار، خود افغانستان جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔
ڈی ڈبلیو اردو نے فنکاروں کی مقامی تنظیم ‘دھنر وارثانو‘ کے سیکرٹری جنرل شاہجہان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ”خيبر پختونخوا کے شہر پشاور میں بھی حالات ایسے ہیں کہ فنکاروں کا روزگار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر رہے ہیں کہ کس طرح ہم ان لوگوں کی مشکلات کم کر سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے کچھ مزيد لوگ ان کے ساتھ رابطے میں ہيں، جو سرحد کھلنے کے منتظر ہیں۔ جوں ہی يہ لوگ بھی پاکستان پہنچتے ہيں، يہ تنظیم ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی۔ ”جب یہاں سے ہمارے لوگ افغانستان جاتے ہيں، تو ان کی بھی عزت افزائی ہوتی ہے۔ ہمارا کلچر، زبان اور اقدار ایک ہیں۔ آج یہ لوگ مشکل میں ہیں، تو ہم ضرور ان کا ساتھ دینے کے ليے لائحہ عمل تیار کریں گے۔‘‘
پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا آنے والے خوف زدہ افغان فنکاروں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی شناخت ہے۔ پشاور پہنچنے والے ایک اور فنکار کا کہنا تھا۔ ”ہم ایسے حالات میں ملک سے نکل کر آئے ہیں کہ ہمیں تو اپنی شناخت چھپانی پڑی ورنہ اگر انہیں پتہ چلتا کہ ہم فنکار ہیں، تو پھر ہماری مشکلات بڑھ جاتيں۔ ہم اپنا حلیہ تک تبدیل کر کے نکلے۔ اگرچہ طالبان نے شروع میں عام معافی کا اعلان کیا تھا لیکن ہم محسوس کر رہے تھے کہ ہمیں اور ہمارے خاندانوں کو مستقبل میں خطرات لاحق ہوں گے۔‘‘