تہران (ڈیلی اردو) ایران اور اقوام متحدہ کی ایٹمی ایجنسی نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ آئی اے ای اے تہران کی جوہری سرگرمیوں کی نگرانی جاری رکھے گی۔
رپورٹس کے مطابق ویانا میں ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کے بعد بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی کے دورہ تہران کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے جے سی پی او اے کے نام سے معاہدے کی بحالی کے لیے اُمید کی کرن جاگی تھی۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2018 میں اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ایران بھی اپنے بہت سے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔
اتوار کے روز ایک مشترکہ بیان میں رافیل گروسی اور ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم (اے ای او آئی) کے سربراہ محمد اسلمی، جو ملک کے نائب صدور میں سے ایک ہیں، نے ‘تعاون اور باہمی اعتماد کے جذبے’ کو سراہا جبکہ یہ بھی نشاندہی کی کہ نگرانی کے مسئلے کو صرف تکنیکی انداز میں دیکھنا چاہیے تھا’۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق محمد اسلمی نے ‘رافیل گروسی کے ساتھ اچھے اور تعمیری مذاکرات’ کا خیرمقدم کیا جبکہ ایک مرتبہ پھر معاہدے کے ‘تکنیکی معاملات’ پر بات چیت پر زور دیا۔
ان کا معاہدہ ان حدود سے متعلق ہے جو ایران نے آئی اے ای اے کی اپنی جوہری تنصیبات پر نظر رکھنے کی صلاحیت پر عائد کی ہیں۔
ایران نے کیمروں اور نگرانی کے دیگر ٹولز سے ریئل ٹائم فوٹیج فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے جو اقوام متحدہ کے ادارے نے ان مقامات پر نصب کیے ہیں۔
سمجھوتے کے معاہدے کے تحت نگرانی کا سامان ایجنسی کی تحویل میں رہتا ہے لیکن ڈیٹا ایران کے قبضے میں ہوتا ہے اور جب تک یہ انتظام نافذ رہے گا اسے مٹایا نہیں جانا چاہیے۔
ابتدائی طور پر اس پر تین ماہ کے لیے اتفاق کیا گیا، پھر معاہدے میں مزید ایک ماہ کی توسیع کی گئی اور پھر 24 جون کو یہ ختم ہوگیا تھا۔
اس سے قبل اگلے اقدامات کے بارے میں کوئی بات نہ کرتے ہوئے آئی اے ای اے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تہران کے اقدامات سے اس کی ‘تصدیق اور نگرانی کی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے’۔