لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں میرا فٹبال کھیلنا جرم بن گیا تھا۔ میں اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ مجھے صرف میرے فٹبال کھیلنے کے شوق نے افغانستان چھوڑنے پر مجبور کیا۔
یہ الفاظ ہیں افغانستان کی خواتین فٹبال ٹیم کی کھلاڑی سویتا کے جو بدھ کی صبح افغانستان سے لاہور پہنچی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اور اُن جیسی دیگر خواتین فٹبال اور دیگر کھیل کھیلنا چاہتی ہیں۔
ایس پی ماڈل ٹاؤن دوست محمد کا پنجاب فٹبال سٹیڈیم کا دورہ، سٹیڈیم میں مقیم افغان ویمن فٹبال ٹیم کی سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا اور انتظامیہ کے ساتھ سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کیلئے دن رات کوشاں ہیں، ایس پی ماڈل ٹاؤن دوست محمد pic.twitter.com/J3vtUlurW4
— SP Model Town (Ops) (@spmodeltown) September 15, 2021
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سویتا نے کہا کہ وہ فٹبال کو بطور کھیل جاری رکھنا چاہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے شوق کی خاطر اپنا ملک چھوڑا۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
سویتا نے مزید کہا کہ طالبان نے افغانستان بھر میں لڑکیوں کے فٹبال کھیلنے سمیت تمام کھیلوں پر پابندی لگا دی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ فٹبال کھیلیں اور اچھے کھلاڑی بنیں افغانستان کے حالات ابھی ٹھیک نہیں ہیں۔ اسی لیے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا ہے۔”
واضح رہے کہ افغانستان سے اُن کی فٹبال قومی ٹیم کے مرد اور خواتین کھلاڑی بدھ کی صبح بذریعہ بسز لاہور پہنچے ہیں جن کو فیفا ہاؤس لاہور میں ٹھیرایا گیا ہے۔
افغان خواتین فٹبالرز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین فٹبالرز کے لیے حالات اب سازگار نہیں رہے۔
افغان خواتین فٹبالرز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین فٹبالرز کے لیے حالات اب سازگار نہیں رہے۔
افغانستان سے آنے والی دیگر کھلاڑیوں میں رویا بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ پاکستان آ کر وہ زیادہ محفوظ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ افغانستان میں رہ جانے والی دیگر خواتین فٹبال سے دور نہ ہو جائیں۔
رویا نے مزید کہا کہ وہ صرف کھیلنا چاہتی ہیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ وہ فٹبال کے کھیل میں خوب محنت کریں اور بڑی کھلاڑی بنیں۔ لیکن ایسا طالبان کے ہوتے ہوئے افغانستان میں ممکن نہیں تھا۔
خواتین کھلاڑیوں کے ہمراہ آنے والی ایک خاتون کھلاڑی کی والدہ نفیسہ کہتی ہیں کہ اُن کی بیٹی فٹبال کی بڑی کھلاڑی بننا چاہتی ہے۔ لیکن وہ افغانستان میں محفوظ نہیں ہے۔ اِسی لیے اُنہوں نے پاکستان آنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اُن کے مطابق اُن کی بیٹی کی عمر 18 برس ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نفیسہ نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ اُن کی بیٹی جب کسی بھی دوسرے ملک میں رہے گی تو وہ فٹبال کھیل کر زیادہ خوش ہو گی اور وہ وہاں بطور کھلاڑی زیادہ محفوظ ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ “میری بیٹی اور دیگر خواتین افغانستان کی نسبت دنیا کے کسی بھی ملک میں زیادہ محفوظ رہیں گی۔”
پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے افغان خواتین فٹبالرز کی پاکستان آمد پر اُنہیں خوش آمدید کہا ہے۔
ایک ٹوئٹ میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کھلاڑیوں کے پاس افغان پاسپورٹ اور پاکستانی ویزے ہیں۔
We welcome Afghanistan Women football team they arrived at Torkham Border from Afghanistan,The players were in possession of valid Afg Passport, pak visa, They were received by Nouman Nadeem of PFF
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) September 14, 2021
پاکستان فٹبال فیڈریشن کے نائب صدر سردار نوید خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان سے 117 مرد اور خواتین کھلاڑیوں کی پاکستان آنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ جن میں سے 79 کھلاڑی پہنچ چکے ہیں جب کہ دو کھلاڑی راستے میں ہیں۔ اُن کی آمد کے بعد کھلاڑیوں کی کل تعداد 81 ہو جائے گی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ چند کھلاڑیوں کے ساتھ اُن کے اہلِ خانہ بھی موجود ہیں۔ سب کو 30 روز کا ویزہ دیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ تمام کھلاڑیوں کا بھرپور خیال رکھا جائے گا اور دورانِ قیام اُنہیں تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
سردار نوید کے مطابق کھلاڑیوں کو بعد ازاں کھیلنے کی اجازت دی جائے گی جس کے انتظامات جلد مکمل کر لیے جائیں گے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ 30 دوز کے بعد اِن کھلاڑیوں کے ویزے کی مدت میں توسیع کی جائے گی یا نہیں اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
فیفا دفتر پاکستان کے مطابق افغانستان کے مرد اور خواتین فٹبال کے کھلاڑیوں کو انسانی بنیادوں پر ہنگامی طور پر ویزے جاری کیے گئے ہیں جو اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ طورخم سرحد کے ذریعے پاکستان پہنچے ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد طالبان کی حکومت نے خواتین کے ہر قسم کے کھیل کھیلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔