اسلام آباد (ڈیلی اردو) اعلی تعلیمی شعبہ کو 26.9 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے، بجٹ کٹوٹی کے باعث پاکستانی جامعات مشکلات میں گھرِ گئی ہیں۔
گزشتہ مالی سال پی ایس ڈی پی فنڈز کا تخمینہ تقریباً 31 ارب لگایا گیا جبکہ صرف 14 ارب روپے جاری کیے گئے۔
سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز اور ریکٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں گزشتہ تین سال میں بجٹ میں کی جانے والی کٹوتیوں کے سبب معاشی ایمرجنسی کا سامنا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن سیکرٹریٹ میں وائس چانسلرز کمیٹی کے دو روزہ اجلاس میں سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز اور ریکٹرز نے اعلی تعلیمی اداروں کو درپیش موجودہ معاشی بحران کا حل تلاش کرنے کے پر غوروخوض کیا۔
وائس چانسلرز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے اس موقع پر کہا کہ ریکرنگ بجٹ میں اعلی تعلیمی شعبہ کو 26.9 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ موجودہ حکومت اس معاشی بحران سے نکلنے میں جامعات کی معاونت کرے گی۔
گزشتہ تین سال سے جامعات میں طلباء کے اندراج کے برخلاف ان کی فنڈنگ میں کمی آئی۔ یہ بحران تنخواہوں اور پینشن میں اضافے اور نئی جامعات کی مالی ضروریات کی وجہ سے مزید شدت اختیار کر گیا۔ اس وجہ سے معیار تعلیم متاثر ہوگیا اور جامعات کو تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔
پی ایس ڈی پی فنڈز کا تخمینہ تقریباً 31ارب روپے لگایا گیا تھا تاہم اصل جاری کردہ رقم صرف 14.083ارب ہے۔
وائس چانسلرز نے امید ظاہر کی کہ حکومت موجودہ مالی سال میں جامعات کی فنڈنگ بحال کرے گی اور اگلے مالی سال (2019-20)کے لئے اعلٰی تعلیمی شعبے کی ضرورت جو کہ 103.55 ارب روپے ہے کو پورا کرے گی۔
انہوں نے جامعات کے ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے بھی حکومت سے مناسب فنڈز فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ۔جامعات کے سربراہاں کو مخاطب کرتے ہوئے چیئرمین ایچ ای سی نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے تحفظات وفاقی اور صوبائی حکومتوں تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ایچ ای سی نے ہر یونیورسٹی کوحکومتی فنڈز کی فراہمی سے متعلق بجٹ فارمولا پر نظرثانی کے لئے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ انہوں نے جامعات کے سربراہان کو نصیحت کی کہ جامعات کے کاموں میں مستعدی اور شفافیت لانے اور فنڈز اکٹھے کرنے کے لئے اقدامات کریں۔
انہوں نے بتایا کہ ایچ ای سی جامعات کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے کی بڑی مہم کے لئے قواعد تشکیل دے رہا ہے اور اس حوالے سے دسمبر 2019 میں تعلیمی ہفتہ منایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ 2022 تک جامعات کو غیر حکومتی اور ٹیوشن فیس کے علاوہ بیس فیصد تک ریونیو اکٹھا کرنے کے ذرائع پیدا کرنے کے لئے کوشش کرنے کی بھی ہدایت کی۔ اجلاس میں دیگر زیر غور آنے والے موضوعات میںوائس چانسلرز کی طرف سے قومی مقاصد کے لئے یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن بڑھانے پر مبنی وژن بشمول قومی اتحاد و اتفاق کا فروغ، علمی پر مبنی معیشت کا فروغ، اور ملک کے سافٹ پاور کی ترویج شامل تھے۔ اس حوالے سے خصوصی اقدامات جیسے ملک کے مختلف حصوں میں طلباء اور فیکلٹی کا تبادلہ، مختلف صوبوں میں طلباء کے داخلے، غیر ملکی طلباء کو پاکستانی جامعات میں داخلہ دلانے یا غیر ملکی فیکلٹی کو پاکستان لانے اور جامعات کے اساتذہ کا استعداد کار بڑھانے کی کاوشیںشامل ہیں۔
چیئرمین ایچ ای سی نے وائس چانسلرز کو وزیراعظم شکایات پورٹل کے ذریعے ملنے والی شکایات کے ازالے کی اہمیت کے حوالے سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقینی بنانا ہو گا کہ پورٹل پر کوئی بھی شکایت لاینحل نہ رہے۔ وائس چانسلرز نے اجلاس میں دیگر معاملات بشمول نیشنل اکادمی فار ہایئر ایجوکیشن کے قیام، قومی ضروریات سے ہم آہنگ تحقیق کے فروغ، کالج کی سطح پر تعلیم کے فروغ، اور پاکستان ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نیٹ ورک منصوبے کی کامیابی پر بھی گفتگو کی۔