کابل (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے پی) طالبان حکومت کے خواتین ملازمین کو گھروں تک محدود رہنے کے مبینہ حکم کے خلاف خواتین نے کابل میں مظاہرے کیے۔ وہ خواتین کو بھی ملازمت اور تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
Women protest in front of the entrance of the Ministry of Women's Affairs regarding the removal of the Ministry of Women's Affairs and the creation of a Ministry of Prohibition and Denial by the Islamic Emirate of Taliban#AfghanWomen #Kabul_afghanistan pic.twitter.com/FqYTqeHgZ3
— Nilofar Moradi (@NilofarMoradi2) September 19, 2021
کوئی ایک درجن سے زائد خواتین نے کابل میں خواتین امور کی وزارت کے اس دفتر کے باہر اتوار کے روز مظاہرہ کیا، طالبان حکومت نے جس کا نام تبدیل کر کے اب وزارت برائے ‘امر بالمعروف او نہی عن المنکر‘ یعنی’نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے‘ کی وزارت کر دیا ہے۔
Today, Afghan women infront of virtue and vice ministry: You took my holy soil, dont take my education. pic.twitter.com/FiVA4zaCCT
— Tajuden Soroush (@TajudenSoroush) September 19, 2021
خواتین نے حقوق اور انسانی حقوق کے حق میں نعرے بھی لگائے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا،”جس سماج میں خواتین سرگرم نہ ہوں وہ ایک مردہ سماج ہے۔”
خواتین کو گھروں پر رہنے کا حکم
عالمی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق طالبان کے کابل کے عبوری میئر حمد اللہ نامونی نے اتوار کے روز کہا کہ اگلے فیصلے تک خواتین ملازمین کو گھروں میں رہنے کو کہا گیا ہے۔
حمد اللہ نامونی کا کہنا تھا کہ خواتین کو گھروں سے باہر جا کر صرف ان کاموں کی اجازت ہو گی، جو مرد نہیں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”چند ایسے شعبے ہیں، جہاں مرد کام نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے خواتین عملے کو وہ کمی پورا کرنے کے لیے کہیں گے، اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔”
رپورٹ کے مطابق افغانستان بھر میں سرکاری اور نجی دونوں سطح پر خواتین کو گھروں میں رہنے کو کہا گیا ہے تاہم طالبان نے خواتین کے کام کرنے کے حوالے سے اب تک باقاعدہ پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے۔
خواتین کے حوالے سے طالبان کا موقف کیا ہے؟
سن 1990 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان دور میں خواتین کے تئیں انتہائی سخت پالیسیاں نافذ کی تھیں، جن میں مکمل پردے کے بغیر گھروں سے باہر نکلنے والی خواتین کو سر عام مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔
گزشتہ ماہ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد طالبان نے اپنی سخت گیر پالیسیوں کو نرم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے ‘اسلامی حدود کے اندر‘ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ طالبان نے جس نئی عبوری کابینہ کا اعلان کیا ہے، اس میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
سیکنڈری اسکولوں میں پڑھنے والی لڑکیوں کو اب تک اسکول جانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور یونیورسٹیوں میں کلاسوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔
خواتین پر عائد پابندیوں کے خلاف گزشتہ ماہ بھی سینکڑوں خواتین نے سڑکوں پر مارچ کیا تھا۔
اتوار کے روز ہونے والے مظاہرے میں شامل ایک خاتون کا کہنا تھا کہ خواتین امور کی وزارت کو بحال کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو گھروں میں رکھ کر اور اسکول جانے کی اجازت نہ دے کر افغانستان میں خواتین کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ان کا مزیدکہنا تھا،”افغانستان کی آج کی خواتین 26 برس پہلے والی خواتین نہیں ہیں۔”