واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ میں گھوڑوں پر سوار سرحدی ایجنٹس کی تارکین وطن کو مویشیوں کی طرح دریا میں واپس لے جانے کی تصاویر کے سامنے آنے کے بعد اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے ان مناظر کو ’ہولناک‘ قرار دیا ہے۔
ٹیکساس میں ریو گرانڈے ندی کے نزدیک ہاتھ میں چابک لیے پناہ گزیوں کو دوڑاتے ہوئِے گھڑ سوار امریکی سرحدی ایجنٹس کی ان ویڈیوز اور تصاویر نے ملک بھر میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔
یہ مناظر ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر پناہ گزینوں کا نیا بحران جاری ہے جہاں گزشتہ ہفتے تقریباً بارہ ہزار پناہ گزین کو، جن میں زیادہ تر کا تعلق ہیٹی سے ہے، ایک پُل کے نیچے عارضی کیمپ میں رکھا گیا۔ یہ پُل ٹیکساس کے شہر ڈیل ریو کو میکسیکو کے شہر سیودا ایکونہ سے جوڑتا ہے۔
پناہ گزینوں کی حالتِ زار پر شدید تنقید کا نشانہ بننے کے بعد حکام نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ شدید گرمی سے بچاؤ کے لیے ان پناہ گزینوں کو ڈیال ریو انٹرنیشنل پل کے نیچے روکا گیا ہے جہاں وہ امریکی سرحدی محافظوں کی جانب سے گرفتاری کے منتظر ہیں۔
امریکی حکومت نے اتوار کے روز سینکڑوں پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا شروع کر دیا اور ڈیل ریو بارڈر کراسِنگ کو بند کر دیا جس کے سبب سینکڑوں پناہ گزین میکسیکو کی جانب واپس چلے گئے۔
آخر ہوا کیا؟
چونکہ یہ پناہ گزین پل کے نیچے ٹھہرے ہوئے ہیں اور امریکی سرحد پر پانی اور خوراک کی قلت تھی اس لیے ان میں سے کچھ پناہ گزین عارضی کیمپ میں جانے سے پہلے اپنے اور اپنے افرادِ خانہ کے لیے کھانا اور پانی خریدنے کے مقصد سے میکسیکو میں داخل ہو گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے فوٹو گرافر پال رتجے نے دریا پار کرنے والی جگہ پر اس وقت یہ تصاویر لیں جب یہ پناہ گزین واپس امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
فوٹو گرافر نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں موقع پر پہنچا تو لوگ سرحد پار کر رہے تھے کہ اچانک وہاں کچھ پولیس والے پہنچ گئے اور لوگوں کو واپس بھگانے لگے اس کے بعد سرحدی ایجنٹ گھوڑوں پر سوار وہاں پہنچے اور انھوں نے لوگوں کو بھگانا شروع کر دیا۔‘
ان تصاویر میں سرحدی ایجنٹس کے ہاتھ میں ’چابک‘ دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ یہ لگام ہے جس کا استعمال یہ محافظ گھوڑوں کو قابو کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
پال رتجے کا کہنا تھا کہ علاقے میں پناہ گزینوں کا تانتا بندھا ہوا ہے جہاں ایجنٹ کہتے ہیں کہ ’تم اندر نہیں آ سکتے واپس میکسیکو جاؤ‘ جبکہ پناہ گزین کہتے ہیں کہ ’ہمارے گھر والے اُس پار ہیں۔‘
اسی دوران ایک افسر نے ایک شخص کو پکڑ لیا جو ایک تھیلی میں بظاہر کھانا لیکر جا رہا تھا۔
امریکی میڈیا کے مطابق روکنے کے باوجود بھی یہ پناہ گزین دریا پار کر کے کیمپ تک پہنچ جاتے ہیں۔
واشنِگٹن پوسٹ کے نامہ نگار جو پناہ گزینوں کے مسئلے پر رپورٹنگ کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہاں کے جغرافیائی حالات کے سبب سرحدی محافظوں کا گھوڑوں پر سوار ہو کر گشت کرنا معمول کی بات ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ عموماً محافظ پناہ گزینوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میکسیکو واپس چلے جائیں۔
اس معاملے میں پناہ گزین کھانا لے کر واپس آ رہے تھے۔
تنازع
پیر کے روز امریکی پریس سیکرٹری جین پساکی کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ان تصاویر کو دیکھ کر کوئی بھی یہ کہے گا کہ یہ مناسب یا قابلِ قبول رویہ ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’مجھے پوری بات کا علم نہیں اور کسی بھی صورت میں میرے خیال میں یہ مناسب نہیں۔ یہ تصاویر ہولناک ہیں اور یقیناً انھیں دوبارہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘
ڈیموکریٹ پارٹی کی رکن کانگریس الہان عمر نے سرحدی ایجنٹس کے رویے کو انسانی حقوق اور قومی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہا ہے۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے سیکرٹری الیجینڈرو میورکاس کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ واقعے کی تحقیقات کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پناہ گزینوں کا معاملہ چیلنجِنگ اور دل دکھا دینے والا ہے۔‘
تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ ’اگر آپ غیر قانونی طور پر امریکہ آ رہے ہیں تو آپ کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ اس طرح آپ اپنی اور اپنے افرادِ حانہ کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘
پیر کی دوپہر امریکی محکمہ برائے داخلی سکیورٹی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ پناہ گزینوں کے ساتھ بدسلوکی کو برداشت نہیں کرے گا۔
محکمے کا کہنا تھا کہ یہ تصاویر اور ویڈیوز تشویشناک ہیں جس کی جلد از جلد تحقیقات کروائی جائیں گی اور اس کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
امریکی سرحدی سکیورٹی کے سربراہ چیف رال اورٹز نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کے قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کی جانب سے نا قابلِ قبول رویہ نہ اختیار کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ افسران مشکل حالات میں کام کر رہے تھے، وہ پناہ گزینوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ سمگلروں کی بھی تلاش میں رہتے ہیں۔
نیا سرحدی بحران
اس صورتِحال نے صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے لیے نیا انسانی اور سیاسی چیلنج پیدا کر دیا ہے جس نے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے برعکس پناہ گزینوں کے تئیں انسان دوست رویہ اختیار کرنے کا عہد کیا تھا۔
ہیٹی کو حال ہی میں دو بڑے بحرانوں کا سامنا رہا ہے: ایک ملک کے صدر جوینل موئسے کا قتل اور دوسرا زلزلہ جس سے ملک کا جنوب مغربی خطہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے
بی بی سی مانیٹرِنگ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی سرحد پر موجود ہیٹی سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر پناہ گزین اپنا ملک 2010 میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد بہت پہلے ہی چھوڑ چکے تھے۔ اس زلزلے میں تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ لوگ برازیل اور چلی جیسے ممالک میں کچھ عرصے سے رہ رہے ہیں۔
ای ایف ای کی رپورٹ کے مطابق پچھلے دو دن میں 560 پناہ گزین پہلے ہی ہیٹی پہنچ گئے ہیں اور ہزاروں ٹیکساس کے کیمپ میں ہیں۔
اس پیر کو واپس بھیجے جانے والے 233 افراد ہیٹی پہنچے ہیں جن میں 45 عورتیں اور 45 بچے شامل ہیں اور زیادہ تر عورتوں کی گود میں بچے تھے۔
امریکی حکام کے مطابق ان کے علاوہ جن لوگوں کو پہلے ہی ملک بدر کیا جا چکا ہے ان میں ہیٹی کے چھ ہزار سے زیادہ باشندوں کو دیگر ایمیگریشن مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے جنھیں واپس بھیجا جائے گا۔
ہیٹی کے کچھ لوگوں نے شکایت کی ہے کہ وہاں آنے پر امریکی سرحدی ایجنٹ ان کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں۔
ایک خاتون نے خبر رساں ایجنسی ای ایف ای سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ہیٹی کے لوگوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں جیسے کہ وہ چور ہوں، ہیتی کے لوگ چور نہیں ہوتے بلکہ یہ لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں ہیں۔ دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا، یہ نسل پرستی ہے۔‘
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ ’پُل کے اندر کا حصہ کسی چھوٹے سے قصبے کی طرح لگتا ہے جس کی اپنی ہی معیشت ہے جس کا مرکز کھانے پینے کی اشیا ہیں۔‘