کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی/اے پی) افغانستان کے شہر ہرات سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے سنیچر کو اغوا کے مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث چار ملزمان کی لاشیں مختلف عوامی مقامات پر لٹکا دیں۔
BREAKING: Witness says Taliban have hanged a dead body from a crane in the main square of Herat city in western Afghanistan. https://t.co/df2NiHcqcZ
— The Associated Press (@AP) September 25, 2021
ہرات کے ڈپٹی گورنر مولوی شیر احمد ایمار کے حوالے سے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ طالبان نے ان تمام مبینہ اغوا کاروں کا پیچھا کر کے انھیں ایک مبینہ مقابلے میں ہلاک کیا ہے۔
انھوں نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ان لاشوں کو ہرات کے مختلف مرکزی چوراہے پر اس لیے لٹکایا تاکہ یہ دوسرے اغواکاروں کے لیے عبرت کا نشان بن سکیں۔‘
یہ انتہائی ہولناک مظاہرہ طالبان کی مذہبی پولیس کے سربراہ کے بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں واضح کیا گیا تھا کہ افغانستان میں اب سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزائیں دوبارہ دی جائیں گی۔
طلوع نیوز نے طالبان حکام کے حوالے سے بتایا کہ ان افراد نے ’ایک تاجر اور اس کے بیٹے کو اغوا کیا‘ اور ان کے اہلِ خانہ سے رقم کا مطالبہ کیا۔ خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا گیا ہے کہ ایک لاش کو کرین کے ذریعے شہر کے مرکزی علاقے میں لٹکایا گیا تھا۔
Taliban Display Bodies of Alleged Kidnappers in Herat#TOLOnews https://t.co/ytfMRDTr8d
— TOLOnews (@TOLOnews) September 25, 2021
ایک مقامی دکاندار وزیر احمد صدیقی نے ایجنسی کو بتایا کہ چار لاشوں کو چوک میں لایا گیا، ایک کو لٹکا دیا گیا جبکہ دیگر تین لاشوں کی شہر کی مختلف چوکوں پر نمائش کی گئی۔
Atrocity is back. Taliban have hanged four individuals in Herat city in the west of Afghanistan after they were accused of kidnapping a businessman.
— Zahra Rahimi (@ZahraSRahimi) September 25, 2021
بی بی سی کی جانب سے آزادانہ طور پر ان افراد کے قتل کے محرکات سے متعلق تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔
تاہم سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پک اپ ٹرک کے پیچھے خون آلود لاشیں موجود ہیں اور ایک لاش کو کرین کے ذریعے لٹکایا گیا ہے۔
ایک اور ویڈیو میں ایک شخص کو کرین سے لٹکا دیکھا جا سکتا ہے اور اس کے سینے پر لکھا ہوا ہے ‘اغواکاروں کو ایسے سزا دی جائے گی۔’
15 اگست کو افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ان کا موجودہ دور اقتدار ماضی کے نسبت سخت نہیں ہو گا۔ البتہ ملک کے مختلف حصوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
گذشتہ روز طالبان حکومت میں جیل خانہ جات کے انچارج ملا نورالدین ترابی نے امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کو بتایا تھا کہ ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں ’سکیورٹی کے لیے ضروری ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اب یہ سزائیں سرعام نہیں دی جائیں گی جیسا کہ 90 کی دہائی میں طالبان کے سابقہ دور حکومت میں ہوتا تھا۔
تاہم انھوں نے ماضی میں سرعام پھانسی کی سزاؤں پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے قوانین کیا ہونے چاہییں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعہ کو کہا کہ امریکہ نے ایسی اطلاعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جن میں دوبارہ ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزاؤں کی واپسی کی بات کی گئی ہے۔
ادھر طالبان کے وزیر دفاع اور افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب نے تسلیم کیا ہے کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان جنگجوؤں کی جانب سے شہریوں کے ’انتقامی قتل‘ کے واقعات پیش آئے ہیں۔
گذشتہ ہفتے ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا تھا کہ طالبان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ اور احترام کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا دینوشیکا دیسانیاکے نے کہا تھا کہ ‘ہم نے تشدد کی لہر دیکھی ہے جس میں بدلے کے لیے حملے، خواتین پر پابندیاں، اور مظاہروں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈاؤن شامل ہیں۔’