نیو یارک (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکی تاریخ میں افغانستان کی جنگ نہ صرف سب سے طویل بلکہ سب سے مہنگی بھی ثابت ہوئی ہے۔
امریکہ کی یہ جنگ رواں سال 30 اگست کو کابل میں آخری امریکی فوجیوں کے انخلا سے ختم ہوئی۔ براؤن یونیورسٹی کے کاسٹ آف وار پراجیکٹ کے مطابق اس پر امریکی خزانے کے اربوں ڈالر خرچ ہوئے۔
اب افغانستان پر طالبان کے قبضے اور امریکی فوجیوں کی جانب سے افراتفری میں انخلا کو کچھ تجزیہ کار اس جنگ کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔
مگر جہاں بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک ’ناکام جنگ‘ ہو سکتی ہے، وہیں کچھ افراد کے لیے اس دوران ‘زبردست منافع کا موقع’ پیدا ہوا۔
کاسٹ آف وار کے مطابق سنہ 2001 سے 2021 کے درمیان امریکہ نے جتنے پیسے اس جنگ پر خرچ کیے، اس میں سے نصف رقم کی ادائیگی افغانستان میں امریکی محکمہ دفاع کے مختلف آپریشنز کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کی گئی۔
ان میں سے بھی بہت بڑا حصہ اُن نجی کمپنیوں کی خدمات کے لیے ادا کیا گیا جنھوں نے افغانستان میں امریکی آپریشنز کو سہارا دیا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں کینیڈی سکول آف گورنمنٹ کی پروفیسر لنڈا بلمز کہتی ہیں کہ اس جنگ میں امریکی افواج کے اپنے فوجی اور وسائل بہت کم تھے۔ اکثر وسائل دفاعی کنٹریکٹرز نے فراہم کیے تھے۔ ‘مجموعی طور پر امریکی فوجیوں کے مقابلے کنٹریکٹرز کے فوجیوں کی تعداد دگنی تھی۔’
بلمز نے بتایا کہ سیاسی طور پر ان امریکی فوجیوں کی حد مقرر کی گئی تھی جو افغانستان میں تعینات کیے جانے تھے۔ کنٹریکٹرز کی تعداد اسی بنیاد پر طے کی جاتی تھی۔
‘بہت زیادہ کام درکار تھا۔ اس کا مطلب کنٹریکٹرز (کے فوجی) طیاروں کو ایندھن فراہم کرتے تھے، ٹرک چلاتے تھے، کھانا بناتے تھے، صفائی کرتے تھے، ہیلی کاپٹر اڑاتے تھے اور ہر قسم کے سامان کی منتقلی کرتے تھے۔ انھوں نے فوجی اڈے، ایئرپورٹ، ایئرسٹرپ وغیرہ تعمیر کیے۔’
وہ پانچ کمپنیاں جن کے نام سب سے زیادہ رسیدیں بنائی گئیں
افغانستان میں سہولیات کی فراہمی کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک کی سو سے زیادہ کمپنیوں کو پینٹاگون کی طرف سے ٹھیکے دیے گئے۔ ان میں سے کچھ کمپنیوں نے ان ٹھیکوں سے اربوں ڈالر کمائے۔
کون سی کمپنیوں نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، اس حوالے سے سرکاری معلومات دستیاب نہیں ہے۔
مگر باسٹن یونیورسٹی میں کاسٹ آف وار پراجیکٹ کا حصہ ’20 سالہ جنگ’ منصوبے کی ڈائریکٹر پروفیسر ہیدی پیلٹر نے اپنے غیر شائع تخمینے بی بی سی کو فراہم کیے ہیں۔
یہ معلومات امریکی حکومت کی ویب سائٹ یو ایس اے سپینڈنگ ڈاٹ کام سے حاصل کی گئی ہے۔ اس ویب سائٹ کو امریکہ میں 2008 کے مالی بحران کے بعد تشکیل دیا گیا تھا اور اس میں امریکی حکومت کے اخراجات سے متعلق معلومات دی جاتی ہے۔
پیلٹر کا کہنا ہے کہ ‘یہ اعداد و شمار 2008 سے 2021 کے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ ٹھیکے 2008 سے پہلے بھی دیے گئے ہوں گے۔ اگر ہمارے پاس 2001 (سے 2008) کی معلومات بھی ہوں تو اصل تخمینہ اس سے زیادہ ہوسکتا ہے۔’
ان اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں سرِفہرست تین امریکی کمپنیاں ڈینکارپ، فلور اور کیلوگ براؤن اینڈ روٹ (کے بی آر) تھیں جنھیں امریکہ کی حکومت نے سب سے بڑے ٹھیکے دیے۔
ان کمپنیوں کو لاجسٹکس اوگمینٹیشن پروگرام فار سویلین پرسونل (ایل او جی سی اے پی) کے تحت ٹھیکے دیے گئے۔ اس کے علاوہ انھیں معمولی نوعیت کے ٹھیکے بھی دیے جاتے تھے۔
پیلٹر نے کہا ہے کہ ‘عام طور پر ایل او جی سی اے پی کے ٹھیکے ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے دیے جاتے ہیں تاکہ مختلف سروسز حاصل کی جاسکیں جیسے لاجسٹکس، مینجمنٹ، ٹرانسپورٹ، سپورٹ، سامان کی مرمت، طیارے وغیرہ۔’
امریکی کمپنی ڈینکارپ سے افغانستان میں مختلف سروز حاصل کی گئیں جن میں ملک کی نیشنل پولیس اور انسداد منشیات کی فورسز کو سامان کی فراہمی اور تربیت شامل تھے۔ یہ کمپنی سابق صدر حامد کرزئی کی حفاظت کے لیے باڈی گارڈز کی ٹیم بھی دیتی تھی۔
ڈینکارپ کو حال ہی میں ایک دوسری امریکی کمپنی امینٹم نے خرید لیا ہے۔ پیلٹر کے مطابق ڈینکارپ کو ایل او جی سی اے پی کے ٹھیکوں کی مد میں 7.5 بلین ڈالر ملے اور مجموعی طور پر انھیں 14.4 بلین ڈالر کے ٹھیکے دیے گئے۔
بی بی سی کی درخواست پر کمپنی کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ‘سنہ 2002 میں ڈینکارپ انٹرنیشنل افغانستان میں ہماری حکومت اور اتحادیوں کے ساتھ کھڑی تھی۔’
انھوں نے مزید کہا کہ نجی کمپنی ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ٹھیکوں سے متعلق معلومات جاری نہیں کرتے۔
ٹیکساس میں قائم کمپنی فلور کو جنوبی افغانستان میں امریکی فوجی اڈے تعمیر کرنے کے ٹھیکے دیے گئے تھے۔
کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ملک میں 56 اڈے آپریٹ کرتے تھے، ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو سہولیات فراہم کرتے تھے اور ایک دن میں ایک لاکھ 91 ہزار سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلاتا تھے۔
پیلٹر کے مطابق مجموعی طور پر فلور کارپوریشن کو افغانستان میں 13.5 بلین ڈالر کے ٹھیکے دیے گئے جن میں سے 12.6 بلین ایل او جی سی اے پی کے ٹھیکے تھے۔
بی بی سی نے فلور کارپوریشن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ افغانستان میں جنگ کے دوران وہ کن کاروباری سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
دوسری طرف امریکی کمپنی کے بی آر کو امریکی فوج کی حمایت کے لیے انجینیئرنگ اور لاجسٹکس کا کام سونپا گیا تھا۔ انھیں رہائش، کھانے اور بنیادی ضروریات کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
افغانستان میں متعدد ہوائی اڈوں کے ذریعے نیٹو افواج فضائی آپریشنز کرتی تھیں۔ زمین پر ان کی معاونت کے لیے کے بی آر کو ذمہ داری دی گئی تھی۔ ان میں مختلف سروسز شامل ہیں جیسے رن وے اور طیاروں کی سروس، ہوائی اڈوں کی مینجمنٹ اور ایروناٹیکل (فضائی) مواصلات۔
پیلٹر کے اعداد و شمار کے مطابق کے بی آر کو پینٹاگون سے قریب 3.6 بلین ڈالر مالیت کے ٹھیکے ملے۔
کمپنی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘کے بی آر نے سنہ 2002 سے 2010 تک افغانستان میں امریکی مسلح افواج کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ ہمیں دستمبر 2001 میں ایل او جی سی اے پی کا ٹھیکہ ملا تھا۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘اسی پروگرام کے تحت ہم نے امریکی فوج کے لیے 82 فوجی اڈوں پر سہولیات فراہم کیں جیسے کھانا، لانڈری، بجلی، صفائی اور مرمت۔ جولائی 2009 میں فوج نے کام میں تسلسل کے ٹھیکے ڈینکارپ اور فلور کو دیے جنھوں نے مشترکہ طور پر وہ سہولیات فراہم کیں جو کے بی آر فراہم کر رہا تھا۔ کے بی آر کی سروسز ستمبر 2010 میں ختم ہوگئی تھیں۔’
چوتھی کمپنی جسے سب سے بڑے ٹھیکے ملے وہ ریتھیون تھی۔ یہ امریکہ میں بڑی فضائی اور دفاعی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسے افغانستان میں سہولیات کی فراہمی کے لیے 2.5 بلین ڈالر کے ٹھیکے ملے۔
اسے حال ہی میں افغان ایئرفورس کی ترتیب کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی جس کے لیے سنہ 2020 میں اس نے 145 ملین ڈالر کا ٹھیکہ حاصل کیا تھا۔
ورجینیا میں قائم سکیورٹی اور انٹیلیجنس کی کمپنی ایگس ایل ایل سی افغانستان میں سب سے زیادہ پیسے کمانے والی پانچویں سب سے بڑی کمپنی تھی۔ اسے امریکی حکومت سے 1.2 بلین ڈالر کے ٹھیکے ملے تھے۔
اسے کابل میں امریکی سفارتخانے کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
بی بی سی نے اس کمپنی سے افغانستان میں سرگرمیوں سے متعلق سوالات کے لیے رابطہ کیا مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
دفاعی کمپنیوں کے بارے میں کیا معلومات ہے؟
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں جنگ کے دوران سب سے زیادہ مالی فائدہ دفاعی کمپنیوں کو ہوا، جیسے بوئنگ، ریتھیون، لاک ہیڈ مارٹن، جنرل ڈائنیمکس اور نارتھ روپ گرومین۔
لنڈا بلمز کہتی ہیں کہ ‘انھوں نے جنگ سے بہت زیادہ پیسے کمائے ہیں۔’
تاہم یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ انھوں نے اس دوران کل کتنے پیسے وصول کیے کیونکہ ان کے کنٹریکٹ افغانستان میں آپریشنز سے براہ راست تعلق نہیں رکھتے تھے۔
پیلٹر کا کہنا ہے کہ ان تمام کمپنیوں کو امریکہ کے لیے چیزیں بنانے کے کنٹریکٹ دیے گئے جنھیں افغانستان میں استعمال کیا گیا۔ انھیں افغانستان میں اخراجات میں شامل نہیں کیا گیا۔
کاسٹ آف وار پراجیکٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی فوج کے لیے ٹھیکوں میں ان پانچ کمپنیوں نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2001 سے 2020 تک ان پانچ کمپنیوں کو پینٹاگون سے دو عشاریہ ایک ٹریلین ڈالر کے ٹھیکے ملے۔
بی بی سی نے ان پانچ کمپنیوں سے پوچھا کہ افغانستان میں جنگ کے دوران ان کے کاروبار پر کیا اثرات پڑے۔
جنرل ڈائنیمکس نے بات کرنے سے انکار کردیا جبکہ باقیوں نے یہ تحریر شائع ہونے تک ردعمل نہیں دیا۔
پیلٹر ریتھیون کے کیس کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کمپنی نے اوپر بتائے گئے 2.5 بلین ڈالر سے زیادہ پیسے وصول کیے کیونکہ یہ رقم صرف افغانستان میں براہ راست ٹھیکوں کی مد میں دی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ریتھیون کو اسلحے اور مواصلاتی سامان کے لیے آرڈر ملے تھے اور انھیں امریکہ میں بنایا گیا پھر افغانستان میں استعمال کیا گیا تو ڈیٹا بیس میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس ٹھیکے کا تعلق کس ملک سے ہے۔
ایروسپیس ٹیکنالوجی کی کمپنی اسلحہ، نیویگیشن، مواصلاتی سامان اور دیگر سروسز فراہم کرتی ہے۔ کئی کیسز میں یہ سامان امریکی مسلح افواج کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنوایا جاتا ہے۔ پھر انھیں افغانستان میں استعمال ہونے والے فوجی سامان میں شامل کر لیا جاتا ہے۔
مثلاً ریتھیون نے فوجی طیارے اوسپرے وی-22 کے لیے ریڈار اور نائٹ ویژن سسٹم بنایا۔ یہ بوئنگ طیارہ افغانستان میں کافی استعمال کیا گیا اور اس میں ورٹیکل ٹیک آف کی صلاحیت ہے۔
بوئنگ کمپنی نے ایف 15 اور ایف 18 طیارے بھی بنائے ہیں۔ لنڈا بلمز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کے ورک ہارس (گھوڑے) ہوا کرتے تھے۔
لیکن بوئنگ ان بڑی کمپنیوں کی فہرست میں شامل نہیں اور نہ ہی لوک ہیڈ مارٹن اس کا حصہ ہے۔ لوک ہیڈ مارٹن بھی اسی طرح ایک دفاعی کمپنی ہے جو بلیک ہاک ہیلی کاپٹر بناتی ہے۔ انھیں افغانستان میں کافی حد تک استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
بلمز کا کہنا ہے کہ جنرل ڈائنیمکس کے کیس میں انھوں نے سب سے زیادہ لائٹ آرمرڈ گاڑیاں بنائیں اور افغانستان میں سائبر سکیورٹی سے متعلق کام کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی دفاعی کمپنیوں نے بھی اس جنگ سے کافی پیسے بنائے مگر اسے براہ راست اس جنگ سے جوڑا نہیں جاسکا۔
ان کا کہنا ہے کہ مثلاً اگر آپ نے ایک طیارہ فروخت کیا ہے۔ یہ افغانستان میں استعمال ہوسکتا ہے یا اسے کنساس میں تربیت کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ان کے مطابق ’یہ چیزیں طویل مدتی کنٹریکٹ کے تحت بنائی جاتی ہیں اور چونکہ ہم عراق اور افغانستان میں ملوث رہے اس لیے ان کمپنیوں نے 20 سالہ جنگ میں بہت پیسے بنائے۔ مگر انھیں خاص کر افغانستان میں آپریشنز کے ساتھ جوڑا نہیں جاسکتا۔‘
بی بی سی کے سوال پر پینٹاگون کی ترجمان جسیکا میکسویل کا کہنا تھا کہ ’یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ ان پانچ بڑی دفاعی کمپنیوں نے افغانستان میں جنگ کے دوران سامان اور سہولیات کے عوض کتنے پیسے بنائے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس کا تخمینہ لگانا ناممکن ہے۔ ’محکمہ دفاع ان کمپنیوں سے بڑی تعداد میں سامان اور سہولیات حاصل کرتا ہے۔ لیکن انھیں صرف افغانستان کے لیے نہیں خریدا گیا تھا۔‘
‘ہم انھیں دنیا بھر میں آپریشنز کے لیے خریدتے ہیں۔ کچھ کو افغانستان میں استعمال کیا گیا، بعض کو کم مدت کے لیے یا وقفے کے ساتھ (جیسے ٹرانسپورٹ طیارے)۔ کچھ سامان کو طویل مدتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔’
اجارہ داری اور زیادہ قیمتیں
بلمز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے دوران کمپنیوں کے پاس یہ صلاحیت تھی کہ وہ مختلف سامان اور سہولیات کی قیمتوں کا تعین کر سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ کئی کنٹریکٹ تو بغیر مقابلے کے دے دیے گئے تھے۔ کیونکہ کچھ کیسز میں سپلائرز اور کمپنیوں کی اجارہ داری تھی۔ لیکن بعض اوقات ضروری کام کے لیے زیادہ کمپنیاں دستیاب نہیں ہوتی تھیں۔ اس لیے وہ اپنی من مانی قیمتیں حاصل کرسکتے تھے۔
ان کے مطابق بعض اوقات کمپنیاں صورتحال کی خرابی یا دیگر مشکلات (جیسے مخصوص جگہوں پر سہولیات کی فراہمی) کی بنا پر قیمتیں بڑھا دیتی تھی۔
اس پر پینٹاگون کی ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق ٹھیکوں کا تخمینہ نہیں لگایا گیا لیکن عام طور پر پینٹاگون 95 فیصد آپریشنز کے لیے جائزے کے بعد کنٹریکٹ دیتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ محکمہ دفاع کی پالیسی میں کڑے جائزے کے بعد ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ ‘اس پیشرفت کے ابتدائی مراحل میں اکثر اسلحے کے ٹینڈر جاری کیے گئے۔ یہ سچ ہے کہ کئی مواقع ایسے تھے جب انھیں بنانی والے ایک ہی تھے۔’
بلمز کا کہنا ہے کہ اس میں سود کی شرح بہت زیادہ ہوتی تھی لیکن بعض اوقات یہ صرف بدعنوانی تھی۔
ان کے مطابق ‘ایسا بھی ہوا کہ عمارت کو پینٹ کیا گیا اور اس کے عوض 20 گنا زیادہ رقم وصول کی گئی۔ یہ سود تھا۔ ایسی بدعنوانی بھی دیکھی گئی جس میں پیسے وصول کر لیے گئے مگر عمارت کو پینٹ نہیں کیا گیا۔ ہم اسے فرضی بجٹ کہتے ہیں کہ آپ کہہ دیں وہاں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جسے پینٹ کیا جائے اور یہ کہہ کر آپ سارے پیسے اپنے پاس رکھ لیں۔’
‘افغانستان میں ہم اس سطح پر تھے، خاص کر کچھ مقامی کنٹریکٹرز کے معاملے میں۔’
بلمز کا کہنا ہے کہ وہاں ٹھیکیدار آگے مزید کمپنیوں کو ٹھیکے دیا کرتے تھے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں کہ وہ انھیں کتنے پیسے دیتے تھے۔ اس لیے سارے پیسوں کو ٹریک کرنا مشکل ہے۔
اس معاملے پر پینٹاگون کی ترجمان نے بی بی سی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وفاقی قوانین اور نگرانی کی مدد سے ایسا مضبوط نظام برقرار رکھا جاتا ہے جس میں سامان اور سہولیات مناسب قیمتوں پر حاصل کی جاتی ہیں۔ اور جہاں صرف ایک سپلائر ہو وہاں بھی اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ان کے مطابق قیمتوں اور اخراجات پر قانون کے تحت غیر کمرشل ٹھیکیداروں سے، جو اس شعبے میں واحد سپلائر ہوں، اخراجات اور قیمتوں کے حوالے سے ’صحیح اور بروقت ڈیٹا طلب کیا جاتا ہے تاکہ حکومت مناسب قیمتوں کے لیے سودے بازی کرسکے۔’
کرپشن کے الزامات پر میکسویل کا کہنا ہے کہ بدعنوانی، سود یا کرپشن کے شواہد محکمہ دفاع میں تحقیقات کے لیے انسپکٹر جنرل کو بھیجے جانے چاہییں۔
اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک خبر میں بتایا گیا کہ انسپکٹر جنرل کے دفتر کے مطابق سنہ 2008 سے 2017 کے درمیان امریکہ کو افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں میں 15 عشاریہ پانچ بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔
بلمز کے مطابق جنگ سے صرف کسی ایک کمپنی کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ کئی کمپنیوں کو فائدہ پہنچا۔ ان میں دفاعی، لاجسٹکس، تعمیراتی اور ایندھن کی سپلائر کمپنیاں شامل ہیں۔ ان میں وہ کمپنیاں بھی شامل ہیں جو افغانستان میں فوجی آپریشن کے دوران سامان اور سہولیات فراہم کرنے کا واحد راستہ تھیں۔ ان میں سافٹ ویئر پارٹ اور پروگرام بھی شامل ہیں۔
ان کے مطابق کئی کمپنیوں نے اس دوران اپنے شعبے میں بہت اچھا کام کیا۔