کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) 15 اگست 2021 تک افغان دارالحکومت کابل میں سوشل میڈیا پر کئی ایسے بااثر افغان صارفین فعال تھے جو طالبان کے پالیسوں کے سخت ترین ناقد تھے۔
لیکن 15 اگست کے بعد سے اِن اکاؤنٹس پر خاموشی سی چھا گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر بیشتر افغان صارفین اپنے ماضی کی تصاویر، سٹیٹس اور ٹویٹس ڈیلیٹ کر رہے ہیں اور اس خوف سے کہ طالبان اُن کو ماضی کی بنیاد پر نشانہ نہ بنائیں اکثر صارفین نے سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
اگرچہ کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے ان تمام افغانوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا جو اس سے پہلے طالبان کے خلاف لڑ رہے تھے یا جو گذشتہ حکومت کا حصہ تھے تاہم گذشتہ 36 روز میں افغانستان کے مختلف شہروں سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں طالبان جنگجوؤں نے سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے کئی افراد کو نشانہ بنایا ہے۔
گذشتہ ہفتے طالبان کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نے تسلیم کیا تھا کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان جنگجوؤں کی جانب سے شہریوں کے ’انتقامی قتل‘ کے واقعات پیش آئے ہیں۔
افغانستان میں اپنے صارفین کے تحفظ کے لیے فیس بک نے 19 اگست کو چند نئے فیچرز متعارف کروائے تھے جن کے تحت افغان صارفین اپنے پروفائلز کو لاک کر سکتے ہیں۔
بی بی سی نے کابل اور افغانستان کے ایک اور بڑے شہر میں موجود دو ایسے سوشل میڈیا صارفین سے بات کی ہے جو طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل انتہائی بااثر صارفین مانے جاتے تھے اور سوشل میڈیا پر ان کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں تھی۔
تاہم اب ان دونوں صارفین نے طالبان کے خوف سے اپنے اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیے ہیں۔ افغانستان کے حالات کے پیش نظر ہم ان صارفین کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے اور ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
’وہ جہاں ملے گا، سر پر گولیاں کھائے گا‘
فدا (فرضی نام) کابل میں موجود ایک سرگرم افغان سوشل میڈیا صارف تھے۔ 15 اگست سے پہلے تک وہ سوشل میڈیا پر طالبان کے سخت ترین مخالف تھے اور ان کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے تھے، لیکن اب نہ تو وہ طالبان کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا دیکھتے ہیں۔
فدا نے کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اپنا فیس بک اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا تھا اور اب ان کا نام اُن افراد کی فہرست میں ہے جنھیں مغربی ممالک کی جانب سے بیرونِ ملک پناہ دی جائے گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فدا نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد انھیں اُن کے رشتہ داروں کے ذریعے یہ اطلاع پہنچائی گئی تھی کہ انھیں کسی بھی قیمت پر زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔
’میرے رشتہ داروں کو اُنھوں نے بتایا تھا کہ جن افراد کو ہم عام معافی کے اعلان کے باوجود بھی معاف نہیں کریں گے، اُن میں فدا کا نام بھی شامل ہے، وہ جہاں ملے گا، سر پر گولیاں کھائے گا۔‘
فدا کے مطابق کابل پر طالبان کے قبضے کے دوسرے دن انھوں نے اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے فیس بک کی آخری پوسٹ بھی طالبان مخالف تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ کسی صورت طالبان کے افغانستان میں جینا نہیں چاہتے۔ ’میں اب یہاں رہنے پر موت کو ترجیح دوں گا۔‘
’ابھی تو آغاز ہے تھوڑا انتظار کیجیے‘
حارث خان (فرضی نام) افغانستان کے ایک بڑے شہر میں طالبان کے نافذ کردہ نظام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لیکن طالبان کنٹرول سے پہلے وہ اکثر جمہوریت کے حق میں اور ’طالبانائزیشن‘ کے خلاف سوشل میڈیا پر فعال رہتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنا اکاؤنٹ سقوط کابل سے دو دن قبل اس لیے ڈیلیٹ کیا کیونکہ ان کے مطابق ’مجھے لگ رہا تھا کہ اب جمہوریت نہیں طالبان کا دور آ رہا ہے۔‘
کابل پر طالبان کنٹرول سے پہلے کئی سال تک افغان حکومت پر یہ الزام لگتا رہا کہ کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس حکومتی سرپرستی میں چل رہے ہیں اور سوشل میڈیا صارفین کو حکومت کے حق اور طالبان کے خلاف پوسٹ کرنے کے عوض صدارتی محل سے ’باقاعدہ تنخواہیں‘ ملتی ہیں۔
لیکن حارث کہتے ہیں کہ ’انھوں نے پوری زندگی کسی کے کہنے پر کچھ پوسٹ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی کسی سے پیسے لیے ہیں۔‘
’میں جمہوریت کے حق میں تھا، صدر اشرف غنی کے حق میں نہیں۔۔۔ کیونکہ انھوں نے گذشتہ تین، چار سالوں میں کچھ ایسے کام کیے، جس کی وجہ سے میں ان کے خلاف لکھتا رہا تھا۔‘
حارث خان بھی ان سینکڑوں افغان نوجوانوں کی فہرست میں ہیں جو جلد ہی اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں پناہ لے لیں گے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ طالبان نے تمام افغانوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے، تو وہ کیوں ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’اب بھی وہ لوگوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، کہیں لوگوں کو مار رہے ہیں تو کہیں سرچ کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تو آغاز ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ’جس طرف یہ ملک جانے والا ہے، میرا نہیں خیال کہ کوئی پڑھا لکھا افغان اب یہاں رہ پائے گا۔‘
طالبان کی جانب سے بارہا افغان نوجوانوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں اور اُن کے ساتھ ملکی اداروں میں کام کریں تاکہ ملک کا پڑھا لکھا اور تجربہ کار طبقہ دوسرے ملک کی خدمت کی بجائے اپنے ہی ملک کی خدمت کرے۔
تاہم ملک چھوڑنے والے اکثر افغان نوجوانوں کا خیال ہے کہ وہ طالبان اور ان کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے اور جیسے ہی موقع ملا وہ اپنا ملک چھوڑ کر باہر چلے جائیں گے۔